نظام تعلیم میں جدت کے مضمرات

Jul 18, 2013

پروفیسر محمد یوسف عرفان

اردو زبان قومی سلامتی کی ضامن ہے اگر اردو زبان کی قومی حیثیت سے انحراف کیا گیا تو پاکستان خاکم بدہن علاقائی اور لسانی شکست و ریخت کا شکار ہو جائیگا۔ پاک و ہند کی تاریخ میں بانی پاکستان قائداعظم سے زیادہ انگریزی تعلیم و تربیت کا پروردہ کوئی اور نہیں رہا۔ انکی انگریزی دانی پر خود اہل زبان انگریز بھی رشک کر تے تھے مگر قائداعظم نے اردو زبان کو متحدہ پاکستان کی قومی اور سرکاری زبان قرار دیا ہے۔ فی الحقیقت پاکستان کے آئین کے مطابق اردو زبان کو بہت پہلے سرکاری زبان بن جانا چاہئے تھا لیکن اس میں تاویل اور تاخیر کے کئی حربے استعمال کئے جاتے رہے۔
اردو زبان برصغیر پاک و ہند کی واحد عملی زبان ہے جو خطے کے ہر کونے میں سر تا حال بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ انگریز نے 1857ءمیں مسلمانوں سے حکومت چھینی اور جلد بھی اکثریتی ہندو آبادی کی متروک العمل قدیم ترین سنسکرت زبان کی سرکاری سرپرستی شروع کردی۔ عام غیر مسلم آبادی کو اردو کے استعمال سے روکنا ناممکن تھا لہٰذا اردو کو دیوناگری یعنی ہندی رسم الخط میں لکھنے کو ترجیح دینا شروع کر دی۔ بدقسمتی سے آج پاکستان میں اردو قرآنی رسم الخط کے بجائے قبل اسلام کے رومن رسم الخط میں لکھی جا رہی جبکہ انگریز نے ایسٹ انڈیا تاجر کمپنی کے زیر اثر صوبوں سے مستعمل سرکاری فارسی زبان کو عوامی اردو زبان میں منتقل کیا اور مسلمانوں کے سرکاری نظام تعلیم کو میکالے نظام تعلیم میں ڈھال دیا۔ جس کا واحد مقصد تھا کہ شاندار ماضی کی حامل مسلمان قوم کو حکمرانی کے بجائے غلامی کا خوگر بنا دیا جائے۔ جب انگریز نے ہندو آبادی کے ساتھ سازباز کرکے اردو کے خلاف ”دیس نکالا پالیسی“ پر عمل شروع کیا تو مسلمان عوام نے سرسید احمد خان‘ نواب وقار الملک اور محسن الملک کی قیادت میں ”اردو بچا¶ تحریک“ کا آغاز کیا۔
 نیز لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کےخلاف علی گڑھ اور دیوبند کے اسلامی نظام تعلیم کی ازسرنو ترویج کی تحریک شروع کی۔مسلمانوں نے سارے ہندوستان میں علی گڑھ اور دیوبند کے زیراثر تعلیمی ادارے بنائے جبکہ انگریز نے ہندو اکثریتی آبادی میں ہندو بنارس یونیورسٹی اور مسلمان اکثریتی علاقوں میں ایف سی‘ جی سی اور ایچی سن جیسے تعلیمی ادارے قائم کئے جن کا مقصد مالدار مسلمانوں کے بچے بچیوں کو غلامی کے خوگر مقامی انگریز اور میکالے بنانا تھا۔ فی الحقیقت اردو زبان اور اسلامی نظام تعلیم تحریک پاکستان کے بنیادی محرک اور قیام پاکستان کے اسلامی جواز کا باعث ہیں۔
 تحریک پاکستان کے دوران اردو زبان کو عوامی زبان بنائے رکھنے میں حالی‘ اکبر الہ آبادی‘ علامہ اقبال‘ حفیظ جالندھری‘ مولانا ظفر علی خاں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اللہ کا احسان کہ پاکستان بن گیا۔ پاکستان کی بانی قیادت مخلص اور جراتمند تھی۔ جنہوں نے اردو کو قومی اور سرکاری زبان قرار دیا۔
 مولوی عبدالحق اور سید عبداللہ جیسے احباب نے پاکستان میں اردو کی ترویج کیلئے دن رات محنت کی۔ حکومت نے اسلامی نظام تعلیم کی ترویج کیلئے سرکاری مدارس‘ سکول اور کالجز کا نیٹ ورک قائم کیا۔ اس نظام نے پاکستان کو نیشنلسٹ استاد‘ وکلائ‘ انجینئر‘ ڈاکٹرز‘ صحافی‘ سائنسدان‘ جرنیل‘ سیاستکار‘ صنعتکار اور سفارتکار عطا کئے۔
سابق صدر جنرل محمد ضیاءالحق نے اردو زبان اور اسلامی نظام تعلیم کو عام کرنے کیلئے نصاب تعلیم میں پاکستانیت کو رواج دیا۔ اردو کو قانون کی زبان بنایا۔ جس کے تحت وکیل اور جج صاحبان کو مدعی اور مدعا الیہ کی زبان اردو میں جرح اور فیصلے کرنے کی اجازت القصہ پاکستان بننے کے بعد بھی اردو زبان اور اسلامی نظام تعلیم کیلئے کچھ نہ کچھ سرکاری سرپرستی جاری رہی۔ آج معاملہ برعکس ہو چکا ہے۔ اردو کی جگہ انگریزی زبان نے لے لی۔
علی گڑھ‘ دیوبند اور پاکستان کے سرکاری سکول‘ کالجز کی جگہ جی سی یو‘ ایف سی کالج اور ایچی سن نے لے لی۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی حیلے بہانے سے سرپرستی بند کر دی گئی۔ تعلیم کو نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کر دیا۔ جس کے باعث تعلیم تجارت بن گئی۔ انگریزی کو لازمی ذریعہ تعلیم قرار دیدیا گیا۔ نصاب تعلیم نیشنلزم کے بجائے انٹر نیشنلزم کا تربیتی ترجمان بن گیا۔ اس طرح غیر ملکی امداد اور احکامات نے مقامی و بین الاقوامی این جی اوز کے ذریعے سول اور فوجی تعلیمی اداروں کو بھی انٹر نیشنلزم کی تربیت گاہ بنا دیا۔ اس وقت بدقسمتی سے پنجاب کے عظیم نیشنلسٹ خادم اعلیٰ بھی مقامی و بین الاقوامی این جی اوز اور غیر ملکی تعلیمی امداد کی آڑ میں زبان‘ نصاب اور نظام تعلیم کی تبدیلی کے درپے ہیں۔
برطانوی وزیر تعلیم کی طرف سے خادم اعلیٰ کی تعلیمی اصلاحات کی تعریفیںکی جاتی ہیں۔ برطانوی مائیکل باربر تعلیمی ایجنڈا لیکر آئے دن پنجاب میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ مختلف غیر ملکی امداد سے چلنے والی مقامی این جی اوز کے سربراہ ڈاکٹر امجد ثاقب خادم اعلیٰ کے تعلیم و صحت کے غیر اعلانیہ مشیر اعلیٰ بن بیٹھے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان میں غیر ملکی زبان‘ نصاب‘ نظام تعلیم اور ایچی سن جیسے تعلیمی اداروں کا نیٹ ورک وسیع کرنیوالے قائداعظم اور علامہ اقبال کے حامی نہیں ہو سکتے۔ نیا نظام تعلیم نہ صرف مہنگا بلکہ پاکستانیت سے بھی عاری ہے۔ صرف تقریری بیان اور انتخابی نعرے بازی سے پاکستانیت مضبوط نہیں ہوتی۔ عملی اقدامات ضروری ہیں جو فی الوقت منفی‘ عوام کش اور قومی سلامتی کیلئے زہر قاتل ہیں۔
اردو زبان کی جگہ انگریزی زبان کو پرائمری سے لازمی ذریعہ تعلیم بنانا عوام کی اکثریت کو ابتدائی تعلیم سے دور اور محروم رکھنے کا مذموم منصوبہ بھی ہے۔ اگر اردو کو تعلیمی اداروں میں مرکزی حیثیت نہ دی گئی توقوم کی حیثیت ایک کالی کوٹھڑی میں بیٹھے فرد کی ہے جس کی آنکھ پر پٹی باندھ دی گئی۔ اردو پاکستان کی تاریخ ہے جس کے بغیر پاکستان اندھا ہو جائیگا۔
مہنگی تعلیم‘ پاکستانیت سے عاری نصاب تعلیم اور نجی تعلیمی اداروں اور سرمایہ کاروں کے نیٹ ورک سے عوام کی اکثریت تنگ اور بے بس ہے۔ اللہ بھلا کرے محترم شریف نظامی اور ان جیسے کئی بے لوث نیشنلسٹ احباب کا جنہوں نے عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے۔ یہ مقدمہ عوام کے بنیادی حقوق سے متعلق قومی و ملی معاملہ ہے جس کو تاریخی تناظر میں عوامی اور عدالتی سہارے کی ضرورت ہے۔
پنجاب ہائیکورٹ نے پہلے ہی پنجاب سرکار سے وضاحت طلب کر رکھی ہے۔ مذکورہ عدالتی مقدمے کو زیادہ سے زیادہ عوامی دلچسپی درکار ہے۔ اس مقدمے کی عوامی حمایت پاکستان کے نظام تعلیم کی حیثیت اول کی حفاظت کرنا ہے۔ موجودہ مہلک نظام تعلیم کے پیچھے انٹر نیشنل قوتیں اپنے بے بہا مال و زر کے ساتھ سرگرم عمل ہیں لہٰذا پاکستان کو تحریک پاکستان جیسے عوامی جذبے اور جرات کی ازسرنو ضرورت ہے۔ اس مقدمے کی جیت کے لئے کام کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔

مزیدخبریں