مجھے قسم ہے اپنے پروردگار کی کہ:

’’آپ مجھ سے نفرت کریں۔ مجھے ملک میں پیدا ہونیوالی ہر برائی کا ذمہ دار قرار دیں۔ مجھے امریکہ کا پٹھو قرار دیں۔ مجھے حکومتی کرپشن یا نا اہلی کا ذمہ دار قرار دیں۔مجھے نا اہل حکومتوں کا سہارا بننے کا ذمہ دار قرار دیں لیکن میں ہمیشہ آپ (اہل وطن) سے محبت کرونگا کیونکہ میں نے قسم اٹھا رکھی ہے کہ میں آپ ،اپنے وطن عزیز اور اپنی دھرتی ماں کی ہر قیمت پر حفاظت کرونگا۔ مجھے قسم ہے اپنے پروردگار کی کہ جب تک پاکستان فوج کا ایک بھی سپاہی زندہ ہے تو انشا ء اللہ وطن عزیز پر کوئی آنچ نہیں آئیگی۔ مجھے قسم ہے اپنے پروردگار کی کہ میں ثابت کرونگا کہ پاکستان اسلام کا آخری قلعہ ہے‘‘۔
یہ اُس پیغام کا ترجمہ ہے جو ایک نوجوان آفیسرنے وزیرستان سے حالتِ جنگ میں اپنی قوم کے نام بھیجا ہے ۔اس پیغام کے نیچے اس نوجوان سولجر کی تصویر ہے جو وزیرستان کی سنگلاخ چٹانوں پر بے یارومددگار پڑا ہے اور چہرے پر خون کے نشان ہیں ۔یہی وہ عظیم لوگ ہیں جن کا ہمیشہ سے ایک ہی نعرہ رہا ہے :’’ہم اپنی جانیں اس لئے قربان کر رہے ہیں کہ قوم زندہ رہے۔ہمیں اپنا آج قوم کے کل پر نثار کرنے کا فخر ہے‘‘۔یہ عظیم قربانی قوم کی حیات کا موجب تو بنتی ہے لیکن قوم یا قوم کے کچھ خصوصی راہنما اس قربانی کا کس انداز میں اعتراف کرتے ہیں توجہ طلب ہے۔
معزز قارئین ! یہ چند لائنیں ہماری قومی تاریخ کی عکاس ہیں۔ یہ پاکستان فوج کی بد قسمتی ہے کہ اس نے مشرقی پاکستان کے تالابوں اور دلدلی علاقوں میں قومی بقا کی جنگ لڑی۔ تالابوں میں چل چل کر جسم جونکوں سے زخمی ہوگئے۔ انسانوں کو پگھلا دینے والے وطن عزیز کے ریگستانوں میں جنگ لڑی۔ بلوچستان اور وزیرستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں جنگ لڑی۔ سیاچن کی برفانی چوٹیوں پر جنگ لڑی۔ چاہے وہ اندرونی دشمن تھا یا بیرونی ہمارے یہ قابلِ فخر فوجی ہی ان کے عزائم کے سامنے چٹان بنے اور وطن کی سلامتی پر بے دھڑک جانیں قربان کیں ،سیلاب ہوں، طوفان ہوں زلزلے ہوں یا کوئی اور قدرتی آفت نظر ہمیشہ پاکستان فوج ہی کی طرف اٹھتی ہے۔اب ایکدفعہ پھر وطن کی سلامتی کیلئے سینہ سپر ہیں۔ ہر مشکل مرحلہ اورہرکٹھن مقام پر وطن کے یہ قابل فخر بیٹے ہی کھڑے نظر آتے ہیں۔اور تو اور وطن کے امن و امان کے مسئلے کے حل کیلئے بھی آخری سہارے کے طور پر فوج ہی کو آگے بڑھنا پڑتا ہے۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان تمام قربانیوں کے باوجود وطن عزیز میں جنم لینے والی تمام برائیوں کا ذمہ دار بھی فوج ہی کو گردانا جاتا ہے۔با الفاظ دیگر فوج قربانیاں بھی دیتی ہے مشکلات بھی سہتی ہے اور ہر برائی کا بوجھ بھی اسی پر لاد دیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو ایسے ایسے نازیبا الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں جو تہذیب اور معقولیت کی حدیں بھی عبور کر جاتے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ یہ سب کچھ فوج کا فرض ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا فرض کی ادائیگی صرف فوج ہی کیلئے ضروری ہے۔ ائیر کنڈیشنڈ دفتروں میں بیٹھنے والے، بلٹ پروف گاڑیوں کے قافلوں میں سفر کرنیوالے، ملکی وسائل کو بیدردی سے لوٹ کر ملک کو کنگال کرنیوالے ،بیرونی ممالک میں جائیدادیں خریدنے والے، غیر ممالک کے بنکوں میں اربوں کی دولت جمع کرنیوالے ،لوٹ مار کیلئے باریاں لگانے والے، دوسرے الفاظ میں دیسی گھی کی چوری کھانے والے مجنوں کیا ہر فرض سے مبّرا ہیں۔ جنہوں نے وطن عزیز کو اس نوبت تک پہنچا یا کیا انکا کوئی فرض نہیں۔ بجلی کی چند ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنیوالے ،کرپٹ لوگوں کو سڑکوں پر گھسیٹنے والے اور ملک سے لوٹی گئی پائی پائی واپس لانے کے اعلانات کرنیوالے ہیرو آج کیا کر رہے ہیں؟پھر ذاتی تعریف میں جعلی اور گمراہ کن ترقیاتی مہم پر دس ارب روپے خرچ کر کے کونسی قومی خدمت انجام دی جا رہی ہے۔پولیس کے نام پر 8ارب روپے کا قوم کو ٹیکہ لگانے کے خواہشمند جمہوری راہنما حکومت یا عوام کو کیوں نظر نہیں آرہے ۔بعد میں قوم اور پولیس کا جو حشر ہوگا اُس سے آنکھیں بند تو نہیں کی جا سکتیں۔
ہمارے اس نوجوان سولجر کی یہ جائز شکایت ہے کہ ملک کی ہر خرابی کی ذمہ داری آرام سے فوج پر کیوں ڈال دی جاتی ہے ۔جس انداز میں ٹی وی پروگراموں میں فوجی جرنیلوں کا تمسخر اڑایا جاتا ہے کوئی بھی مہذب قوم یا مہذب شخص اپنی ہی فوج کو یوں قابل مذاق نہیں سمجھتا۔ ایسی گھٹیا اور بے ہودہ جگتیں دیکھ کر ہر فوجی کو دکھ ہوتا ہے۔ اسوقت کوئی ایسی خرابی نہیں جسکا الزام فوج پر نہ لگایا گیا ہو۔ مثلاً پاکستان میں امریکی دخل اندازی کی ذمہ دار فوج ہے ۔ حکومتی نا اہلی اور کرپشن کی ذمہ دار بھی فوج ہی ہے۔ ملک میں غربت ،لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی کی ذمہ دار ی بھی فوج ہی پر ڈال دی جاتی ہے۔بہانہ یہ کہ یہاں زیادہ عرصہ فوجی حکومتیں قائم رہی ہیں۔ بجا عالیجاہ! لیکن آپ اُن معزز اور قابل احترام حکمرانوں کا ذکر کیوں نہیں کرتے جو فوجی آمریت کا سبب بنے۔ جنہوں نے ملک کو بے تحاشا لوٹا ’’بروٹس‘‘ کی طرح یہ سب قابل احترام ہستیاں ہیں۔ میں ذاتی طور پر فوجی آمروں کی پرزور مذمت کرتا ہوں ۔ جمہوریت کے چمپئن یہ امر کیوںبھول جاتے ہیں کہ یہ فوج کہیں باہر سے نہیں آئی۔یہ فوجی بھی اسی سرزمین کے بیٹے ہیں۔ انہیں سردی بھی لگتی ہے اور گرمی بھی۔وہ مہنگائی اور لوڈ شیڈنگ سے بھی متاثر ہوتے ہیں۔افسوس ہے اپنی ان مفاد پرست شخصیات پر جو وطن عزیز کو تباہی کے کنارے تک پہنچانے والی تو خود ہیں لیکن الزام سارا فوج پر۔ صبح شام زہریلے بیانات سے قوم اور فوج کو گمراہ کرنا اپنا معمول بنا رکھا ہے۔ یہ کتنی بد قسمتی ہے کہ اس مشکل وقت میں جب فوج اپنی تاریخ کی مشکل ترین جنگ ایک ایسے دشمن کیخلاف لڑ رہی ہے جو ضابطہ اخلاق ، قانون کی پاسداری اور انسانی جذبات سے سراسر محروم ہے ۔ ایسے دشمن کو کیا کہا جائے جو کہنے کو تو مسلمان ہے ۔شریعت محمدی لانے کا دعویدار ہے لیکن مسلمان سولجرز کے سر کاٹ کر فٹ بال بنا کر کھیلتاہے ۔ایسے درندہ صفت انسانوں کو راہ راست پر لانے سے بھلا بڑی فوجی خدمت کیا ہو سکتی ہے ؟مزید افسوس یہ ہے کہ ہمارے کچھ اہل شخصیات کی ہمدردیاں اپنی فوج کی بجائے ان لوگوں کے ساتھ ہیں۔ میری نظر میں یہ سب سے بڑی قومی بد قسمتی ہے۔
بہر حال خوشی اس بات کی ہے کہ فوج جب بھی وطن کی سلامتی کیلئے کھڑی ہوئی پوری قوم اسکے ساتھ کھڑی ہوتی ہے ۔ قوم پہلے بھی فوج کے ساتھ تھی اور آج بھی ہے اور انشا ء اللہ فوج کبھی بھی قوم کو دھوکہ نہیں دیگی ۔قوم کو فخر ہے اپنے ان بیٹوں پر جو اپنی جانوں کی قربانیاں دیکر وطن کی سلامتی کیلئے دیوار بنے کھڑے ہیں۔ جب تک اس فوج کا ایک بھی سپاہی زندہ ہے وطن عزیز کی سلامتی پر کوئی آنچ نہیں آئیگی۔انشا ء اللہ۔رہا مسئلہ مفاد پرستوں کا وہ تو ہر دور میں پھلتے پھولتے ہیں۔
؎ گلستان کو لہو کی ضرورت پڑی
سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن
یہ چمن ہے ہمار ا تمہارا نہیں

ای پیپر دی نیشن