سانحہ ماڈل ٹائون خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

احسان شوکت 
سانحہ ماڈل ٹائون کے حوالے سے حکومتی ارباب اختیار اور پولیس افسران و اہلکاروں کی جانب سے خود کو بچانے اور ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کی مضحکہ خیز جنگ شدت سے جاری ہے۔ اس انسانیت سوز واقعہ کی تین مختلف سطحوں پر تفتیش وتحقیقات کا سلسلہ زوروشور سے جاری ہے۔ ایک طرف حکومت کی جانب سے تشکیل دیئے جانے والا عدالتی ٹربیونل معاملہ کی تحقیقات کر رہا ہے تو دوسری طرف ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ کی سربراہی میں ملٹری انٹیلی جنس کے کرنل جعفر، آئی ایس آئی  کے کرنل، لاہور پولیس کے ایس پی انوسٹی گیشن مصطفی حمید، کائونٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے ڈی ایس پی مہر اعظم، سپیشل برانچ کے ڈی ایس پی اسد مظفر اور انوسٹی گیشن پنجاب کے ڈی ایس پی چودھری لیاقت پر مشتمل جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی تفتیش جاری ہے۔
اس کے علاوہ ایڈیشنل آئی جی پنجاب سرمد سعید کی سربراہی میں تین رکنی ایک اعلی سطحی تحقیقاتی ٹیم بھی  کام کر رہی ہے۔ عدالتی ٹربیونل کا کام اصل حقائق سامنے لانا جب کہ اعلی سطحی تحقیقاتی ٹیم کو محکمانہ انکوائری کرکے ذمہ داروں کا تعین کرنا ہے لیکن اصل کام جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کا ہے جو کہ اس واقعہ اور اس کے درج ہونے والے مقدمہ کی تفتیش کر رہی ہے۔ جس وجہ سے سب سے زیادہ اہمیت قانونی و آئینی طور پر جے آئی ٹی کو ہی حاصل ہے کیونکہ اسی ٹیم نے مقدمہ کی تفتیش کرکے ضمنیاں لکھنی اور اس بنیاد پر مقدمہ عدالتوں میں زیر سماعت ہونا ہے۔ مگر دوسری طرف اس سانحہ کے حوالے سے صورتحال دیکھیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ حکومت سانحہ ماڈل ٹائون میں حکومتی اور سیاسی شخصیات کو بچانے کے لئے سارا ملبہ پولیس پر گرا کر خود کو بچانے کی منصوبہ بندی پر پیرائے عمل ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ اس معاملہ میں سے سیاسی و حکومتی شخصیات کو کلین چٹ مل جائے اور اسے پولیس افسران و اہلکاروں کی جانب سے از خود اپنے تحفظ کی جانب سے کیا گیا  اقدام قرار دے کر اپنا دامن صاف کر لیا جائے مگر تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ اس خونریزی میں ملوث پولیس افسران بھی خود کو بچانے کے لئے ماتحت عملہ کو قربانی کا بکرا بنانا چاہتے ہیں یعنی جس کا جو بس چل رہا ہے وہ اپنے آپ کو بچانے اور سارا ملبہ دوسرے پر ڈالنے کے لئے چلا رہا ہے۔ جے آئی ٹی نے اس واقعہ میں ملوث ہونے پر ایک انسپکٹر ایس ایچ او سبزہ زار عامر سلیم شیخ، انچارج ایلیٹ عبدالرئوف اور7 اہلکاروں کو گرفتار کیا تو آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا سمیت تمام افسران نے اس خبر کی تردید کی اور کہا کہ ان کو صرف تفتیش کے لئے روکا گیا ہے مگر بعدازاں ان گرفتار اہلکاروں کو ریمانڈ پر تھانہ ڈیفنس بی حوالات میں بند اور پھر عدالت نے پولیس کے حوالے کیا گیا تو پولیس حکام کو حقیقت آ شکارا ہوئی کہ واقعی سانحہ ماڈل ٹائون میں ملوث پولیس ملازمین کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے کیونکہ اس سے قبل پولیس حکام اس سانحہ میں ملوث افسران و اہلکاروں کو تسلیاں ودلاسے دے رہے تھے کہ حراست میں لئے گئے اہلکاروں کے چھوڑے جانے کی نوید جلد مل جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ اس صورتحال سے پولیس افسران و اہلکاروں  میں کھلبلی مچ گئی اور ان کو اپنی جانوں کے لالے پڑ گئے۔ جس کے بعد واقعہ میں ملوث پولیس افسران واہلکاروں نے فیصلہ کیا کہ پریشر گروپ بنا کر آئندہ سے گرفتاریوں کے خلاف شدید مزاحمت کی جائے۔ آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرا کے ان حالات میں ایک ہفتے کی چھٹی پر چلے  جانے سے افسران و اہلکاروں میں مزید بے یقینی کی فضا چھا گئی اور واقعہ میں ملوث افسران واہلکاروں کو اپنی اپنی پڑ گئی جبکہ آئی جی پنجاب نے 18 یوم کی مزید چھٹیوں کی درخواست بھی دے دی ہے۔ واقعہ میں ملوث سی سی پی او ودیگر حکام کے خلاف تو تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ایسی کوئی شنید ہے مگر ماتحت افسران و اہلکاروں کی جان شکنجے میں آ گئی ہے۔ گرفتار انچارج ایلیٹ عبدالرئوف اور دیگر اہلکاروں  نے تحریری بیان دے دیا کہ ان کو فائرنگ کا حکم ایس پی سکیورٹی سلمان خان نے دیا تھا تو سلمان خان نے گرفتاری کے خوف سے اپنی ضمانت کرا لی۔ ذرائع کے مطابق ڈی آئی جی آپریشنز رانا عبدالجبار عبوری ضمانت کے لئے اپنے وکلا کے ہمراہ عدالت گئے مگر پھر انہوں نے بوجہ رٹ ضمانت دائر نہیں کی۔
دوسری طرف ایس پی سی آر او عمرریاض چیمہ جن کے پاس ایس پی سی آئی اے کا چارج بھی ہے ان کو دو روز قبل ایس پی کینٹ کا بھی چارج دے دیا گیا ہے۔ ان کی بھی دو فوٹیج سامنے آئی ہیں۔ ایک فوٹیج میں وہ بلٹ پروف جیکٹ پہنے اور ہاتھ میں گن پکڑے کھڑے گلو بٹ کو توڑ پھوڑ کرتا دیکھ کر اطمینان سے محظوظ ہو رہے ہیں۔ دوسری فوٹیج میں ا کے دو گن مین مجاہد اور کاشف مظاہرین پر گولیوں کی بوچھاڑ کر رہے ہیں۔ جس پر جے آئی ٹی نے ایس پی عمر ریاض چیمہ کے دونوں گن مینوں کو بھی حراست میں لے لیا ہے۔ ایس پی سکیورٹی سلمان خان کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے۔ 
ایس پی مجاہد رحیم شیرازی سے بھی خواتین پر تشدد کی فوٹیج سامنے آنے پر سوال و جواب کا سلسلہ جاری ہے۔ جے آئی ٹی ایس واقعہ کی تفتیش میں انتہائی متحرک دکھائی دے رہی ہے مگر موجودہ صورتحال سے تو صرف یوں لگتا ہے کہ ویڈیو فوٹیج  دیکھ کر اس میں فائرنگ کرنے والے افسران و اہلکاروں کو شناخت کرکے ان سے بازپرس کی جا رہی ہے مگر سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ فائرنگ کرنے کے احکامات کہاں سے موصول ہوئے اور پولیس نے فائرنگ کس کے حکم سے کی۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ فائرنگ کے احکامات دینے والوں کو جان بوجھ کر نظرانداز کرکے صرف فائرگ کرنے والوں کے خلاف ہی کارروائی کرنے سے اصل ذمہ داروں کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اپنے افسر کے حکم سے گولی چلانے والی معمولی اہلکاروں پر سارا ملبہ ڈال دینا انصاف کی اصل روح کے برعکس ہو گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اصل ذمہ داران کا تعین کرکے ان کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جائے ورنہ اگر حکومت یا پولیس افسران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اصل ذمہ داروں کی بجائے چھوٹے افسران واہلکاروں پر سارا ملبہ ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دے کر سرخرو ہو جائیں گے تو یہ ان کی بھول ہے۔
ذرائع کے مطابق چھوٹے افسران واہلکاروں کی گرفتاری اور دیگر پر گرفتاری کے خوف کی تلوار لٹکا دینے سے اہلکار یہ منصوبہ بندی بھی کر رہے ہیں کہ اگر ان کی مدد کی بجائے افسران نے ان کو پھنسانے اور خود کو بچانے کی روش نہ چھوڑی تو وہ کسی سے ڈرنے کی بجائے خود سارا پردہ چاک کر دیں گے۔ غرض حکمران اور پولیس افسران جان لیں کہ خون کے یہ دھبے اتنی آسانی سے نہیں دھل پائیں گے۔ 

ای پیپر دی نیشن