فوج کو پولیس بنانے کی کوشش اور مسلم لیگ حقیقی

پہلے ن لیگ والے خواجہ صاحبان اسحاق ڈار پرویز رشید اور دوسرے حکمران سیاستدان کہتے تھے کہ ڈاکٹر طاہر قادری عمران خان شیخ رشید چودھری پرویز الٰہی اور چودھری شجاعت سیاست میں فوج کو ملوث کر رہے ہیں۔ وہ کسی اشارے پر یہ سب افراتفری پھیلا رہے ہیں۔ ’’ترقی‘‘ میں رکاوٹ کے لئے ان کا اشارہ فوج اسٹیبلشمنٹ اور ایجنسیوں کی طرف ہوتا ہے۔ اب چودھری شجاعت کابہت زبردست بیان آیا ہے۔ یہ بیان ’’صدر‘‘ زرداری کے بیان کی طرح تہلکہ خیز ہے۔ ن لیگ فوج کو سیاست میں ملوث نہ کرے۔ 14 اگست کو متنازعہ نہ بنایا جائے۔ اس بیان کے اثرات آئندہ چل کر مرتب ہوں گے۔ چودھری شجاعت سیاست میں بڑے زیرک آدمی سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی باتیں بڑی گہری ہوتی ہیں جن کے اثرات فوری طور پر اور آہستہ آہستہ کھلتے ہیں۔ دوست دشمن ان کی اس صلاحیت کے قائل ہیں۔ ان کے مشوروں پر اگر جنرل مشرف نے عمل کیا ہوتا تو انہیں شاید یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ مشرف کے لئے سنگین حالات میں بھی چودھری شجاعت نے بڑی ہنرمندی اور جرات مندی سے باتیں کی ہیں۔ انہوں نے مجاہد صحافت پاسبان نظریہ پاکستان مجید نظامی کی طرف سے مسلم لیگوں کو متحد کرنے کی تجویز کی حمایت کی اور سب اختیارات نظامی صاحب کے حوالے کر دئیے۔ جس کے لئے نظامی صاحب نے ان کی تعریف کی۔ پیر پگارا نے بھی تائید کی مگر نظامی صاحب کے بقول نواز شریف نے سارے معاملے کو سبوتاژ کر دیا۔
چودھری صاحب نے کہا کہ 14 اگست کو فوجی پریڈ نہیں ہوتی۔  23 مارچ یوم پاکستان اس کے لئے مخصوص ہے۔ ڈی چوک میں آرمی چیف کو بلا کے نئی شرارت نہ کی جائے۔  23 مارچ کے دن بھی فوجی پریڈ ختم کر دی گئی ہے جو مناسب نہ تھا۔ اس کے لئے نواز شریف نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا تھا۔ چودھری صاحب نے تجویز دی کہ سیاسی ایشوز کو سیاسی طور پر ہینڈل کیا جائے۔
میں نے پہلے بھی ایک کالم میں لکھا تھا کہ بیرونی طاقتیں اندرونی حکومتیں فوج کو پولیس بنانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاکہ فوج بھی ایک فرمانبردار ادارے کے طور پر اطاعت کرے۔ پاکستان کے دفاع کے لئے حکومت کی نااہلی کو چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ جس طرح فوج کے اعلیٰ جرنیلوں کے مقابلے میں ایک مخصوص میڈیا کی حمایت کی گئی۔ غلیل اور دلیل کی اصطلاح کے حوالے سے معاملے کو الجھایا گیا۔ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کے لئے بھی گومگو والا رویہ اختیار کیا گیا۔ پاک فوج کے خلاف ہر پروپیگنڈے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ پچھلے کئی برسوں سے فوج کا رویہ بہت پروفیشنل ہے۔ سیاست اور جمہوریت کے فروغ کے لئے مکمل تعاون کی فضا بنائی گئی۔ میں جرنیلوں کے سیاستدان بننے کے خلاف ہوں مگر یہ بھی چاہتا ہوں کہ سیاستدان بھی جرنیل بننے کی کوشش نہ کریں۔ اگر بار بار کہا جاتا ہے کہ ہر ادارہ اپنی حدود میں رہ کر کام کرے تو اسے کام کرنے دیا جائے اور کوئی اپنی حدود سے آگے بہت آگے جانے کی کوشش نہ کرے۔
حکومت اور اپوزیشن دونوں فوج کو اپنی بیان بازی اور الزام بازی میں گھسیٹیں گے تو اس کا نتیجہ ٹھیک نہیں ہو گا۔ چودھری شجاعت نے بروقت بات کرکے تمام سیاستدانوں کی توجہ اس طرف دلوائی ہے کہ احتیاط سے کام لیا جائے۔ سیاست پھر سیاستدانوں کی لڑائیوں اور نااہلیوں میں گھر گئی ہے۔ جمہوریت کی بات کرنے والے اپنے روئیے بھی جمہوری بنائیں۔ جو اقتدار میں آتے ہیں وہ اقدار کو بھول جاتے ہیں اور دوسرے اقتدار میں آنے کے لئے سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں۔ ہر طرف بیان بازی اور الزام بازی کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ سیاست کو کاروبار سیاست اور حکومت کو کاروبار حکومت بنا دیا گیا ہے۔
14 اگست کا دن قومی دن ہے۔ قومی تہوار کا حال بھی قومی زبان اور قومی ثقافت کی طرح کیا جا رہا ہے۔ عمران، ڈاکٹر قادری، شیخ رشید اور چودھری صاحبان سے مقابلے کے لئے میدان میں آرمی چیف کو بھی لایا جا رہا ہے۔ نواز شریف کو اب پاک فوج سے روابط بڑھانے کا خیال کیوں آ گیا ہے۔ اس میں کیا راز ہے۔ وہ اچانک جی ایچ کیو بھی چلے گئے۔ ان کے ساتھ صرف چودھری نثار ہوتے تو مناسب تھا۔ وہاں اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کا کیا کام تھا۔ خواجہ آصف نام کے وزیر دفاع ہیں ان کے لئے نوائے وقت کی کالم نگار روبینہ فیصل نے خوب بات کی ہے۔ خواجہ آصف نے لوڈشیڈنگ کی قیامت کے لئے معافی مانگ لی ہے۔ وہ استعفیٰ دیتے تو معافی کی ضرورت ہی نہ تھی۔ قوم تیار رہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتے ہیں معاف کیجئے گا آئی ایم سوری۔ میں ملک کا دفاع نہیں کر سکا۔ حیرت ہے کہ نواز شریف غیر ملکی دوروں کی طرح یہاں بھی پرویز رشید کو ساتھ لے کے نہیں گئے۔ سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ کیا خواجہ آصف اور اسحاق ڈار نے چودھری نثار سے معافی مانگ لی ہے۔
مسلم لیگ ن کی طرح مسلم لیگ حقیقی کے سربراہ نوید خان آج کل بہت قابل ذکر ہو رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی بجائے ڈاکٹر علامہ طاہر قادری صاحب کا ساتھ دینا چاہئے۔ عمران کا انقلاب ان کے وزیراعظم بننے کے بعد بھولا ہوا خواب بن جائے گا۔ قادری  صاحب نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ یہ اصل جمہوریت کی طرف ایک سفر ہے۔ شیخ رشید عمران خان کے ساتھ ہیں اور قادری صاحب کے بھی ساتھ ہیں۔ لگتا ہے وہ صرف اپنے ساتھ ہیں۔ عمران آئے یا قادری صاحب آئیں شیخ صاحب کی وزارت پکی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ نواز شریف لوڈشیڈنگ ختم کریں میں 14اگست کو استعفیٰ دے دوں گا۔ آج کل لوڈشیڈنگ میں اضافہ اسی لئے ہے کہ 14 اگست کے آس پاس لوڈشیڈنگ بالکل نہیں ہو گی۔ لوگ عید بھی لوڈشیڈنگ میں منائیں گے۔ بقول شیخ رشید عید سے پہلے عید ہو گی مگر لگتا ہے کہ عید کے بعد عید ہو گی۔ اب نواز شریف 14 اگست سے کچھ پہلے لوڈشیڈنگ بالکل ختم کر دیں مگر شیخ صاحب پھر بھی استعفیٰ نہیں دیں گے۔ نواز شریف نے چکوال میں کہا کہ ڈالر کی قیمت کم ہو گئی ہے مگر شیخ رشید نے استعفیٰ نہیں دیا تو میں کیوں استعفیٰ دوں۔ ہمارے ہاں استعفے دئیے نہیں لئے جاتے ہیں۔
سینٹ کی اطلاعات کمیٹی میں مسلم لیگ ن کے محترم ظفر علی شاہ نے بتایا کہ سرکاری ریڈیو سے ایک پروگرام میں مسلم لیگ حقیقی کے سربراہ نوید خان نے آدھا گھنٹہ آپریشن ضرب عضب کے لئے بات کی ہے۔ یہ مسلم لیگ حقیقی کہاں سے نکل آئی ہے تو کیا ہم جعلی مسلم لیگ کے لوگ ہیں۔ شاہ صاحب جرات مند آدمی ہیں وہ تو بالکل جعلی نہیں ہیں۔ ان کے جو ساتھی جعلی ہیں وہ انہیں خوب جانتے ہیں۔ سنیٹر سعید غنی نے کہا کہ مسلم لیگیوں کو تو خوش ہونا چاہئے کہ ان کی جماعت کو فروغ مل رہا ہے۔ نئی پارٹی بنانے کے لئے ’’صدر‘‘ زرداری سے تربیت لینا چاہئے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو بڑے سلیقے سے زرداری پارٹی بنا لیا ہے اور کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ اب واقعی مسلم لیگ کو حقیقی بنانے کی ضرورت ہے۔ یہاں جعلی لوگوں کا ہجوم بڑھتا ہی جاتا ہے۔ نوید خان مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اللہ انہیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ پاک فوج اور آپریشن ضرب عضب کی حمایت جاری رہنا چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...