ہمارے ’’دوست مُلک‘‘ امریکہ کو ہمارے معاملات کی بہت فکر رہتی ہے۔ وہ حکمرانوں اور حزبِ اختلاف کے ارکان کو ایک ہی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ یہ الگ بات کہ کبھی یہ آنکھ مَیلی ہوتی ہے اور کبھی بہت ہی زیادہ مَیلی۔ جب بھی کوئی نئی حکومت بنتی ہے تو ہمارا ’’دوست مُلک‘‘ اُسے 5 سال کے لئے 5 سالہ پروگرام بنا کر دے دیتا ہے اور حزبِ اختلاف کو بھی۔
’’لانگ مارچ سے خوفزدہ نہ ہوں‘‘
پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی خصوصی نمائندہ مسِٹر ہِیتھ جونز نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’پاکستان تحریک ِانصاف کے 14 اگست کو اسلام آباد تک لانگ مارچ سے کسی کو خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ یہ کوئی پاکستان کو غیر مستحکم ہونے والا "Event" نہیں ہو گا۔ ایک مستحکم جمہوریت میں ہر طرح سے آزادیٔ اظہار کی اجازت ہونا چاہیے۔‘‘ مسِٹر ہِیتھ جونز نے لانگ مارچ کے شُرکاء کے لئے Rules of the Game" " بھی سمجھا دئیے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ’’پاکستان تحریکِ انصاف کا لانگ مارچ پُرتشدد نہیں ہونا چاہئے اور اِس کا مقصد حکومت کو گِرانا بھی نہیںہونا چاہئے کیونکہ ایک متحرک جمہوریت پاکستان کے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔‘‘ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی عہدیدار نے لانگ مارچ کے بارے میں کُھل کر رائے دینا مناسب سمجھا۔ حکومت کو کیا کیا مشورہ دِیا ہو گا؟ یہی کہ ’’لانگ مارچ‘‘ کے شُرکاء سے وہی سلوک کِیا جائے جو بادشاہ بادشاہوں سے کِیاکرتے ہیں!‘‘
’’14 اگست کو افراتفری کی اجازت؟‘‘
وزیرِاعظم میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ ’’14 اگست کو مُلک میں کسی کو بھی افراتفری پھیلانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘‘ افراتفری یعنی کھلبلی اور ہنگامہ آرئی تو کسی بھی دِن مناسب نہیں ہوتی۔ 14 اگست تو ہمارا یومِ آزادی ہے۔ اِس دِن تو بالکل بھی نہیں لیکن ’’افراتفری کی اجازت‘‘ تو کسی بھی حکومت نے آج تک کسی سیاسی/ مذہبی جماعت کو نہیں دی اور نہ ہی کسی نے حکومت کے کسی افسر یا رُکن کو اِس طرح کی کوئی درخواست دی گئی ہے۔ ’’جنابِ عالی یا جنابۂ عالیہ! ہمیں ایک دِن، ایک ہفتہ، یا ایک ماہ تک فلاں فلاں شہر میں افرتفری پھیلانے کی اجازت دی جائے!‘‘
’’پیپلز پارٹی میں نئی جان؟‘‘
تجزیہ کاروں/ نگاروں کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ ’’وزیرِ اعظم نواز شریف کی مخالفت اور عمران خان کے4 حلقوں کو کھولنے کے مطالبے کی حمایت کرنے کی وجہ سے سابق صدر آصف زرداری کی حمایت نے پاکستان پیپلز پارٹی میں نئی جان ڈال دی ہے۔‘‘ علّامہ اقبالؒ نے تو کسی اور موڈ میں کہا تھا کہ ؎
’’عرُوقِ مُردۂ خاکی میں خونِ زندگی دوڑا‘‘
لیکن تجزیہ کاروں/ نگاروں سے پوچھنا تو ہو گا کہ ’’11 مئی 2013 ء کے عام انتخابات کے بعد کیا پیپلز پارٹی واقعی ’’مُردۂ خاکی‘‘ بن گئی تھی؟‘‘ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ سندھ کا صوبہ اب بھی اُس کے قبضۂ قُدرت میں ہے۔ البتہ ’’سندھ کارڈ‘‘ اُس کے ہاتھ سے پِھسل گیا۔ حضرت امیر ؔمینائی نے بہت پہلے ہی کہہ دِیا تھا کہ ؎
’’آتے ہیں فاتحہ کے لئے روز روز غم
ہے آرزوئے مُردہ کا گویا مزارِ دل‘‘
فی الحقیقت جنابِ آصف زرداری ’’قائدِ عوام‘‘ ذوالفقار علی بھٹو اور ’’دخترِ مشرق‘‘ محترمہ بے نظیر بھٹو سے زیادہ کامیاب سیاستدان ثابت ہُوئے ہیں اور ؎
’’تُو نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی‘‘
کا اُن کا ’’فلسفۂ سیاست‘‘ بھی ایک دَور میں اُردو اخبارات میں ایک اشتہار شائع ہوا کرتا تھا کہ ’100 سالہ بزرگ ایک مُردے کو زندہ کر کے پہاڑوں پر واپس چلا گیا۔‘‘ جنابِ زرداری تو پہاڑوں سے آئے ہی نہیں تھے پھر واپس کیوں جائیں گے؟ پاکستان پیپلز پارٹی جناب آصف زرداری کی جان ہے۔ اُستاد ابراہیم ذوقؔ نے کہا تھا کہ ؎
’’تُو ہماری زندگی پر زندگی کی کیا اُمید؟
تُو ہماری جان لیکن کیا بھروسا جان کا؟‘‘
’’جناب پرویز خٹک کا ’’شارٹ مارچ؟‘‘
خبر ہے کہ ’’وزیرِ اعلیٰ جناب پرویز خٹک کی قیادت میں خیبر پی کے کے وزرائ، مُشیران اور حکومتی پارٹی کے ارکانِ صوبائی اسمبلی بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف ’’مارچ‘‘ کرتے ہُوئے واپڈا ہائوس پشاور میں گُھس گئے اور انہوں نے وفاقی حکومت کے خلاف نعرہ بازی کی اور عوام سے یہ اپیل بھی کہ وہ ’’14 اگست کو آزادیٔ مارچ کے لئے نکل آئیں؟ اِس موقع پر جناب پرویز خٹک نے یہ بھی کہا کہ ’’خیبر پی کے کو اُس کے حصِّے کی بجلی دیں یا واپڈا کو ہمارے حوالے کر دیں ورنہ ہم پنجاب کی بجلی کاٹ دیں گے!‘‘ جناب پرویز خٹک سے درخواست ہے کہ وہ 14 اگست سے شروع ہونے والے لانگ مارچ کے کامیاب یا ناکام ہونے تک اہلِ پنجاب کی بجلی نہ کاٹیں وگرنہ اہلِ پنجاب لانگ مارچ میں ہرگز شریک نہیں ہوں گے البتہ وفاقی حکومت کے خلاف ہر روز ’’شارٹ مارچ‘‘ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں!‘‘
’’طاہر اُلقادری کے ایک کروڑ گُلّو؟‘‘
سانحۂ ماڈل ٹائون لاہور کا ایک کردار پنجاب پولیس کا ٹائوٹ گُلّو بٹ منظرِعام پر آیا تو مَیں نے لکِھا تھا کہ ’’گُلّو ایک شخص کا نام نہیں بلکہ ایک مکتب فِکر ہے اور یہ کہ میرے پیارے وطن میں ’’گُلّو ازم‘‘ کا مستقبل بہت روشن ہے۔‘‘ ایک نجی ٹیلی ویژن کے مطابق جائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے سانحۂ ماڈل ٹائون کے دوران فائرنگ کرنے والے پاکستان عوامی تحریک کے پانچ کارکنوں کا سُراغ لگا لیا ہے اور اُن سے اسلحہ برآمد ہونے کی تصدیق بھی ہو گئی ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون کے دِن نئی نویلی گاڑیاں توڑنے والے گُلّو بٹ کے پاس تو ایک ڈنڈا تھا اور بڑی بڑی مونچھیں، فائرنگ کرنے والے ہتھیار نہیں تھے لیکن ’’علّامہ طاہر اُلقادری کے ’’گُلّو‘‘ پنجاب پولیس کے ٹائوٹ گُلّو بٹ سے زیادہ خطرناک نکِلے۔ علّامہ طاہر اُلقادری کئی بار اعلان کر چُکے ہیں کہ ’’جب بھی مجھے ایک کروڑ نمازی مِل گئے مَیں اُن کی قیادت کرتا ہُوا۔ ’’سبز انقلاب‘‘ لے آئوں گا۔‘‘ پھر موصوف نے ایک کروڑ نمازیوں کی شرط اُڑا دی۔ علّامہ اُلقادری کے 5 گُلّوئوں کا سراغ تو مِل گیا۔ اب اِس بات کی بھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں اُلقادری صاحب نے انقلاب لانے کے لئے کہیں ایک کروڑ گُلّو تو اکٹھے نہیں کر لئے؟