بھارتی جارحیت کا تسلسل اور دفتر خارجہ کا پاکستان بھارت وزراء اعظم ملاقات کے فیصلوں پر عملدرآمد کا عزم
پاکستان نے کہا ہے کہ پاکستان اوفا میں جاری ہونیوالے مشترکہ اعلامیہ کا پابند ہے‘ وزرائے اعظم کی ملاقات میں طے پایا تھا کہ امن کا قیام دونوں ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے‘ ہم پاکستان بھارت وزراء اعظم ملاقات کے فیصلوں پر عملدرآمد کرینگے۔ اس سلسلہ میں دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے اپنی ہفتہ وار پریس بریفنگ میں کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع کرنے جا رہا ہے اور جب مذاکراتی عمل شروع ہو گا تو جموں و کشمیر سمیت تمام مسائل پر بات چیت کی جائیگی۔ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔ انہوں نے کشمیر سے متعلق بھارتی ہائی کمشنر کے مبینہ دعویٰ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے‘ اس پر اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں‘ کوئی بھی یکطرفہ فیصلہ مسئلہ کی ہئیت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ انہوں نے بتایا کہ بھارتی ہائی کمشنر کو لائن آف کنٹرول سمیت سرحدی خلاف ورزیوں بالخصوص بھارتی ڈرون کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر دفتر خارجہ طلب کیا گیا تھا جسے گزشتہ روز پاک فوج نے ایل او سی کے قریب بھمبھر کے علاقے میں مار گرایا تھا۔ انکے بقول ہمسایوں سے پرامن تعلقات وزیراعظم نوازشریف کا وژن ہے۔ سرحدی کشیدگی کا دونوں ملکوں کے مابین مذاکرات کی بحالی کی کوششوں پر کوئی اثر نہیں پڑیگا۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ بھارت تو پاکستان دشمنی میں انتہاء کو پہنچا ہوا ہے جو سرحدی کشیدگی بڑھانے کے علاوہ زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کے اندر حملہ آور بھی ہو رہا ہے اور کشمیر پر اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو آگے بڑھاتے ہوئے اب پاکستان سے ملحقہ آزاد کشمیر پر بھی اپنا حق جتانے لگا ہے مگر ہماری جانب سے ہر بھارتی جارحیت پر ’’ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے‘‘ کا رسمی پیغام دے کر بھارت سے اچھے تعلقات اور امن کی خواہش کو دہرانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی ایسی طفلانہ پالیسیوں نے ہی ہمارے مکار دشمن کے حوصلے بلند کئے ہیں جس نے اپنے ڈرون کی ہماری فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ہمارے دفتر خارجہ کے رسمی احتجاج کو اسی لئے کوئی اہمیت نہیں دی اور اگلے روز بھارتی سیکورٹی فورسز نے کنٹرول لائن کے قریب چپراڑ سیکٹر میں صالح پور‘ جمیاں اور پتوال اور اسی طرح نیزاپیر سیکٹر میں نندی پور اور دیگر دیہات پر گولہ باری اور فائرنگ کی انتہاء کر دی جس کے نتیجہ میں پانچ پاکستانی شہری شہید اور سات زخمی ہو گئے۔ کیا ایسی اشتعال انگیزیوں اور پاکستان پر باقاعدہ جنگ مسلط کرنے کے بھارتی عزائم کے کھلم کھلا اظہار کے بعد اسکے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر کے حل اور امن کے قیام کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ اگر بھارتی وزیر دفاع اپنی افواج کی ساکھ برقرار رکھنے کیلئے پاکستان کے ساتھ جنگ ضروری قرار دے رہے ہیں اور بھارتی خارجہ و داخلہ وزراء کے بعد اب بھارتی ہائی کمشنر بھی آزاد کشمیر تک کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے رہے ہیں تو کیا ہماری جانب سے ’’امن کی آشا‘‘ کا ڈھٹائی کے ساتھ باربار اظہار ہی بھارتی زبان کا جواب ہے۔ اگر ترجمان دفتر خارجہ یہ بیان دے رہے ہیں کہ ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات وزیراعظم نوازشریف کا وژن ہے تو یقیناً انہوں نے وزیراعظم سے بریفنگ لے کر ہی پاکستان کی کمزوری ظاہر کرنیوالا یہ موقف اپنایا ہوگا ورنہ تو موجودہ صورتحال میں بھارت کو اسکے لب و لہجے میں ہی جواب دینا چاہیے کیونکہ لاتوں کے بھوت کبھی باتوں سے نہیں مانا کرتے۔ اگر بھارت قیام پاکستان کے وقت سے ہماری سالمیت کے درپے ہے اور ہم پر تین جنگیں مسلط کرکے ہمارا آدھا حصہ ہم سے کاٹ بھی چکا ہے اور باقیماندہ پاکستان کی سالمیت پارہ پارہ کرنے کے بھی کھلم کھلا اعلانات و اقدامات کرتا نظر آتا ہے تو بھارتی عزائم کو سمجھنے کیلئے ہمارے حکمرانوں کو مزید کتنا وقت درکار ہے۔ کیا انہیں اس وقت سمجھ آئیگی جب انکی ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی خواہش کے باوصف بھارت ہم پر شب خون مار چکا ہوگا۔
ہمارے سابقہ اور موجودہ حکمرانوں کی بھارت سے اچھے تعلقات کی خواہش نے ہی اسے ہم پر غلبہ حاصل کرنے کا موقع فراہم کیا ہے ورنہ اسے تقسیم ہند کے ایجنڈا کے مطابق کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق قبول کرنے کے بجائے اسے متنازعہ اور پھر اپنا اٹوٹ انگ قرار دینے کی جرأت ہی کیوں ہوتی۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی کابینہ کے ارکان اور صاحبزادی بے نظیر بھٹو کے ہمراہ بھارت کا دورہ کرکے پاکستان کے جنگی قیدیوں کو چھڑوانے کی خاطر اندراگاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ بھی کرلیا جس کے ذریعے بھارت نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ کا کردار ختم کرنے کی منصوبہ بندی کے تحت پاکستان سے یہ بات منوالی کہ کشمیر سمیت تمام تنازعات دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے طے کئے جائینگے اور کوئی تنازعہ کسی بیرونی فورم پر نہیں لے جایا جائیگا۔ بھارت تو خود اس معاہدے کا پابند نہیں رہا کیونکہ اس نے کسی بھی سطح کے دوطرفہ مذاکرات آج تک کامیابی سے ہمکنار ہی نہیں ہونے دیئے اور جیسے ہی کشمیر کا ذکر ہوتا ہے اسکے نمائندگان بدک کر اور اپنے ماتھے پر بل ڈال کر مذاکرات کی میز الٹا دیتے ہیں۔ اس بارے میں تاریخ کا ریکارڈ گواہ ہے کہ سیکرٹریوں کی سطح سے لے کر وزراء اور پھر وزیراعظم تک دوطرفہ مذاکرات کیلئے اب تک کی گئی ڈیڑھ سو سے زائد کوششیں خود بھارت نے سبوتاژ کی ہیں جبکہ پاکستان جب بھی اقوام متحدہ یا کسی دوسرے عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اٹھانے کا عندیہ دیتا ہے تو بھارت شملہ معاہدے کو بیچ میں لا کر باور کرانا شروع کر دیتا ہے کہ بیرونی دنیا کا ہمارے دوطرفہ تنازعات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ شملہ معاہدے کے تحت ہم نے تمام تنازعات خود باہمی مذاکرات کے ذریعے طے کرنے ہیں۔ یہی ٹکا سا جواب بھارت امریکہ اور چین کے صدور اور یورپی پارلیمنٹ کو انکی تنازعۂ کشمیر کے حل کیلئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی پیش کشوں پر بھی دے چکا ہے اور فی الحقیقت وہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی راہ پر کبھی آتا بھی نہیں۔ اس طرح اسکی جانب سے تو پاکستان کو باربار ڈھٹائی پر مبنی یہی جواب دیا جارہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر کو بھول جائے اور آزاد کشمیر کی بھی خیر منائے۔
اس بھارتی رویے کی روشنی میں تو ہمارے حکمرانوں کو دوطرفہ مذاکرات کی میز پر اس سے مسئلہ کشمیر کے حل کی کوئی توقع کرنی ہی نہیں چاہیے اور اپنی شہ رگ دشمن کے خونیں پنجے سے چھڑانے کیلئے اپنی ایٹمی تنصیبات کی جھاڑ پھونک کرنی چاہئیے تاکہ بزدل اور مکار دشمن کے ہوش ٹھکانے آئیں مگر لگتا ہے کہ شملہ معاہدے کے بعد بھارتی ہٹ دھرمی کے بار بار اظہار کے باوجود ہمارے حکمرانوں کی ابھی تک عقل ٹھکانے نہیں آئی اور وزیراعظم نوازشریف نے اوفا میں شنگھائی کانفرنس کے موقع پر اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم مودی سے ملاقات کے دوران انکے ساتھ کشمیر ایشو کا تذکرہ تک نہ کرکے اور دہشت گردوں کی مبینہ سرپرستی سے متعلق انکے سارے اشتعال انگیز اور بلاجواز الزامات پر سر تسلیم خم کرکے بھارت کو شملہ معاہدے کے بعد اوفا مشترکہ اعلامیہ کا پروانہ بھی تھما دیا ہے جس کی رو سے اب بھارتی حکام یہی باور کراتے پھر رہے ہیں کہ پاکستان بھارت مذاکرات کا ایجنڈا اوفا مشترکہ اعلامیہ پر ہی مبنی ہو گا جس میں کشمیر کا تو کہیں تذکرہ بھی نہیں ہے مگر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مشترکہ کوششیں بروئے کار لانے کا اس میں بطور خاص تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ دراندازی کے الزامات لگا کر بھارت دہشت گردی کا ملبہ ہمیشہ پاکستان پر ہی ڈالتا ہے۔ اس بھارتی ہٹ دھرمی کی روشنی میں اگر پاکستان اس اعلامیہ پر عملدرآمد کا خود کو پابند قرار دیگا اور اسکی روشنی میں بھارت سے مذاکرات کا عندیہ دیگا تو ایسے مذاکرات میں وہ بھارت سے کشمیر کا تنازعہ کیسے طے کراپائے گا۔ یہ تو بھینس کے آگے بین بجانے والا معاملہ ہے کیونکہ بھارت نے کشمیر کو اٹوٹ انگ قرار دے کر اپنے تئیں کشمیر کا کوئی تنازعہ رہنے ہی نہیں دیا جبکہ وہ مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریتی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنے کی گھنائونی منصوبہ بندی کرکے تقسیم ہند کے فارمولے کے تحت مسئلہ کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کی بھی منصوبہ بندی کر چکا ہے۔
اس تناظر میں ہمارے حکمرانوں کیلئے کسی خوش فہمی کی قطعاً گنجائش نہیں رہی‘ ماسوائے اسکے کہ بھارتی ہٹ دھرمی‘ جارحانہ عزائم اور جارحیت کا اسی کی زبان اور اسی کے لب و لہجے میں جواب دیا جائے اور دشمن کے خونیں پنجے سے اپنی شہ رگ بزور چھڑائی جائے‘ ورنہ تو ملک کی سلامتی پر مکار دشمن کے اوچھے وار کی صورت میں ہزیمتیں ہمارے مقدر میں لکھی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ …ع
اے کشتۂ ستم‘ تیری غیرت کو کیا ہوا