عید آزاداں شکوہ ملک و دیں

رحمتوں، برکتوں، سعادتوں اور نیکیوں کا ماہ مقدس رمضان المبارک تمام ہوا۔ خوش قسمت ہیں وہ جنہوں نے اس مبارک مہینہ کی برکتیں سمیٹیں، گناہوں کو بخشوایا، راتوں کو قیام کیا، دن کو روزے رکھے، اللہ سے تعلق کو مضبوط کیا، مساجد کو آباد کیا، صلہ رحمی کو اپنایا، قرآن مجید کو پڑھا، سمجھا، اس پر عمل کیا، اپنی جبینوں کو اللہ کے حضور جھکایا، اپنی زندگیاں، شب روز، معاملات، معمولات، کاروبار، گھربار کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کا عہد کیا۔ جھلسا دینے والی گرمی اور بے تاب وبے قرار کر دینے والی بھوک وپیاس کو برداشت کیا اور اللہ کی رضا کیلئے رمضان کے مہینے میں محنت ومشقت کی۔ آج… محنت ومزدوری کرنے اور تکلیفیں اٹھانے والوں کیلئے اپنی مزدوری کا اجر اور محنت کا معاوضہ وصول کرنے کا دن آ پہنچا ہے۔ یہ دنیا جزا و سزا کے اصول پر قائم ہے۔ اصولِ دنیا ہے جو انسان جتنی محنت و مشقت کریگا اسے اعزاز واکرام بھی اتنا ہی زیادہ ملے گا۔ اسی طرح انسان کو بھی کچھ پانے اور حاصل کرنے کیلئے محنت ومشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔ عید بھی محنت مشقت کرنیوالوں کیلئے اعزازات وانعامات پانے کا دن ہے۔ دنیا میں انعامات کی تقسیم کی تقریبات ہوتی رہتی ہیں۔ ان تقریبات کی اہمیت کا انحصار شخصیات پر ہوتا ہے۔ صدر یا وزیراعظم کے ہاتھ سے اعزاز وانعام وصول کرنیوالوں کے جذبات و احساسات کا اندازہ کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔ حالانکہ صدر ہو یا وزیراعظم یہ سب عہدے دنیوی و عارضی ہیں۔ اسکے باوجود ان کے ہاتھ سے انعامات وصول کرنیوالے خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ اسکے برعکس جس شخص کو اپنی محنت کا انعام۔ خالق وارض وسما اللہ عزوجل سے مل جائے تو اس خوش بخت اور خوش قسمت انسان کے کیا کہنے۔ گرمی کی حدت وشدت میں روزے کی محنت ومشقت اٹھانے والے ایسے خوش نصیب ہیں کہ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رضا ومغفرت اور گناہوں کی بخشش کے اعزاز سے نوازتے ہیں۔ یہ وہ خوش نصیب ہیں کہ جن کے اعزاز میں ہونیوالی تقریبات کا اہتمام و انتظام فرش پر ہی نہیں عرش پر بھی کیا جاتا ہے۔ جنت کو انکے اعزاز میں سجایا، سنوارا جاتااور فرشتوں میں ان کا تذکرہ ہوتا ہے۔
رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے بعد عیدالفطر کے دن جب لوگ تکبیرات بلند کرتے، گھروں سے نکلتے اور عیدگاہ کی طرف بڑھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں میں ان کا تذکرہ کرتے اور اپنے ان بندوں پر فخر فرماتے ہوئے کہتے ہیں ’’اے میرے فرشتو! اس مزدور کی کیا اجرت ہے جو اپنا کام مکمل کر لے؟ فرشتے کہتے ہیں اسکی جزا اور اجرت یہ ہے کہ اس کو پورا پورا اجروثواب دیا جائے۔ تب اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے فرشتو! میرے بندوں اورباندیوں نے اپنا فرض پورا کر دیا۔ میرے بلند مرتبہ کی قسم! میں انکی دعائوں کو ضرور قبول کروں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے میرے بندو! گھروں کو لوٹ جائو میں نے تمہیں بخش دیا ہے اور تمہارے گناہوں کو بھی نیکیوں میں بدل دیا ہے۔
حکم رسول ﷺہے کہ جب چاند نظر آئے تو اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الا اللہ واللہ اکبر وللہ الحمد کی تکبیرات کثرت سے بلند کرو۔ عیدگاہ کی طرف جاتے وقت بھی یہ کلمہ توحید بلند کرتے جائو اس لئے کہ یہ کلمہ توحید اللہ کی عظمت و کبریائی کا اظہار و اقرار ہے۔ یہ کلمہ توحید انسان کو اللہ سے جوڑتا ، غیر اللہ کے نظاموں کو توڑتا اور غلامی کی زنجیروں کو کاٹتاہے۔ جب انسان اللہ سے جڑ جائے تو وہ دنیا سے نہیں ڈرتا۔ دنیا اس سے ڈرتی ہے۔ آج ہمارے حکمران مغرب سے اس لئے ڈرتے ہیں کہ انکے دلوں میں اللہ کا ڈر نہیں وہ تکبیرات تو بلند کرتے ہیں مگر انکے اصل مفہوم اور مقصد کو نہیں سمجھتے۔ دوسرا حکم رسول ﷺ یہ ہے کہ عید کھلے میدان میں ادا کرو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ مسلمانوں کا یہ اجتماع جہاں انکے اتحاد و اتفاق اور قوت و طاقت کا مظہر ہو وہاں ملک و دین کے شکوہ کا بھی باعث ہو۔
نماز عید آج بھی ادا کی جاتی ہے۔ دنیا کے کم ہی خطے ایسے ہونگے جہاں نماز عید ادا نہ کی جاتی ہو، تکبیریں بھی بلند کی جاتی ہیں لیکن یہ تکبیریں سوز سے خالی، ایمان سے تہی اور جہادی جذبے سے عاری ہیں۔ اس طرح عید کے اجتماعات بھی ہوتے ہیں مگر یہ اجتماعات شکوہ ملک و دین کا مظہر نہیں ہیں اس لئے کہ آج کا مسلمان ایمان کی اس حلاوت و طاقت سے محروم ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو میسر تھی۔ آج دنیا کے بہت سے خطوں کے مسلمان کفر کے نظاموں اورغلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان کیلئے اپنی مرضی سے اور آزادانہ طریقے سے عبادات بجا لانا بھی ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آج عید کے دن ہم مقبوضہ و کشمیر برما، ، ہندوستان، عراق اور فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کو یاد رکھیں اپنی زندگیوں کو اسلام کے مطابق گزارنے کا عہد کریں۔ اسی طرح ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ پاکستان کو اسکے قیام کے حقیقی مقاصد سے روشناس کریں۔ کشمیری اور فلسطینی مسلمانوں کی محض زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی مدد کریں۔ بات یہ ہے کہ پڑوس میں لگی آگ کو نہ بجھایا جائے تو اپنا گھر بھی جلنے سے محفوظ نہیں رہتا۔ کشمیر ہمارا پڑوس ہی نہیں ہمارا گھر بھی ہے جو جل رہا ہے۔ پاکستان میں لگی آگ اس لئے تیز ہو رہی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کشمیر میںلگی آگ کو بجھانے کی کبھی سنجیدہ اور موثر کوشش نہیں کی۔ رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیا تھا اس اعتبار سے فلسطین ہمارا حصہ ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ پاکستان اور عالم اسلام کے حالات اس وقت درست ہوں گے، استحکام اس وقت ملے گا، تحفظ اس وقت یقینی ہو گا، ہمارا زوال اس وقت عروج میں تبدیل ہو گا جب ہمارے روزے دور نبوی کے مدینہ کے روزوں کی طرح ہوں گے اور ہماری عید اسلام کی پہلی عید جیسی ہو گی۔ یہی ہماری سلامتی اور کامیابی کی راہ ہے۔ اسی میں ہماری عزت اور بقا ہے۔

ای پیپر دی نیشن