صدر مملکت ممنون حسین نے کہا ہے کہ تعلیم کی کمی قومی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جس کے لئے تعلیمی معیار کو مزید بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم و ثقافت ’’یونیسکو‘‘ نے کہا ہے کہ دنیا میں 26 کروڑ 30 لاکھ بچے تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔
بدقسمتی سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بجٹ میں 3 سے 4 فیصد حصہ تعلیم کے لئے رکھا گیا ہے لیکن جب بجٹ سامنے آتا ہے تو حقائق یہ سامنے آتے ہیں کہ تعلیم کے لئے 2 فیصد سے بھی بجٹ کم رکھا گیا ہے جو نہ صرف برصغیر بلکہ بعض افریقہ کے پسماندہ ممالک سے بھی کم ہے۔ اس کے باوجود صدر مملکت کہتے ہیں کہ تعلیم کی کمی قومی ترقی میں رکاوٹ ہے ۔ جناب والا! آپ نے تعلیم کو عام کرنے کے لئے جو اقدامات کئے ہیں اس کے تناسب سے ترقی بھی ہوگی۔ صدر مملکت سے لے کر وزیراعظم، گورنرز، وزراء اعلیٰ اور وزراء تعلیم تک ہر کوئی تعلیم کو عام کرنے کے دعوے کرتا ہے لیکن تعلیم عام کرنے میں جورکاوٹیں حائل ہیں انہیں دُور کرنے کی کوئی بھی کوشش نہیں کرتا۔ کوئی بھی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ 18ویں ترمیم کے بعد شعبہ تعلیم صوبوں کو منتقل ہونے کے بعد ہر صوبے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نصاب کی تیاری سے لے کر سکولز کی عمارتوں تک اور اساتذہ کے مسائل سے لے کر بجٹ تک تمام مراحل کو مکمل کرے۔ مگر بدقسمتی سے ہر صوبے نے تعلیم جیسے اہم شعبے کو سب سے آخر میں رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ بھی بچوں کو سکول بھیجنے کے اقدامات بروئے کار لانے کی بجائے صرف سکول نہ جانے والے بچوں کے اعداد و شمار جاری کرکے اپنے فرائض سے عہدہ برأ ہونے کی کوشش میں ہے۔ صرف خالی دعوئوں سے تعلیم عام نہیں ہوگی بلکہ اقوام متحدہ سے لے کر سبھی ممالک کے سربراہان تک ہر کسی کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔