اس کے باوجود کہ حدیث نبوی میں صفائی کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے لیکن والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے زیر انتظام آنے والی متوسط طبقے کی تمام آبادیوں بطور خاص پیر کالونی ¾ قادری کالونی ¾ شکیل پارک ¾ یثرب کالونی ¾ فاروق کالونی ¾مدینہ کالونی میں کوڑے اور جابجا گندگی اس طرح پھیلی دکھائی دیتی ہے جیسے یہ بورڈ کا عملہ صفائی کرنا گناہ کبیرہ تصور کرتا ہے ۔ میں تیس سال گلبرگ کی ایک آبادی میں رہائش پذیر رہا جہاں ہر صبح نماز فجر کے بعد عملہ صفائی کے کام میں مصروف ہوجاتاہے ۔ مجھے والٹن کنٹونمنٹ کے ایریا میں رہتے ہوئے دو سال سے زائد عرصہ ہوچلا ہے ۔ میںنے کسی بھی جگہ ( سوائے کیولر ی گراﺅنڈ کے )صفائی ہوتے ہوئے نہیں دیکھی( سیون سٹریٹ کو چھوڑ کر کیونکہ وہاں بھی اونچے نیچے گٹر کے ڈھکن اور کوڑا جابجا پھیلا دکھائی دیتاہے۔ جونہی تیز ہوا چلتی ہے توبکھرا ہوا کوڑا اور شاپر ہوا میںاڑتے ہوئے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوجاتے ہیں۔گندگی اور کوڑا کرکٹ کے انبار صرف گلیوں اور بازارمیں ہی جابجا دکھائی نہیں دیتے بلکہ متوسط طبقے کی ان تمام آبادبویں میں جتنی بھی مساجد ہیںان کے ارد گرد صفائی کرنا گناہ تصور کرلیا گیا ہے۔ عید الفطر پر بھی اسی بدترین آلودہ ماحول میں اور گندے راستوں سے گزر کر نماز پڑھنے جانا پڑا ۔ جہاں جہاں سیوریج کا پانی کھڑا ہے وہ دھوپ سے تو خشک ہوسکتا ہے اس کے نکاس کا اہتمام نہیں کیاجاتا۔ سال میں ایک بار کپڑے کے چند بینردں لگاکر عوام کو صفائی کا درس دے کر والٹن بورڈ کا عملہ لمبی تان کر کچھ اس طرح سو جاتاہے کہ دوبارہ جگانے سے بھی نہیں جاگتا۔ اگر گلیوں اور بازار کی مخصوص جگہوں پر کنٹینر رکھوائے دیئے جائیں تو لوگ وہاں کوڑا پھینک سکتے ہیں جہاں سے بورڈ کاعملہ کوڑا اٹھاسکتا ہے لیکن ان تمام کالونیوںمیں کہیں بھی کوئی کنٹینر دکھائی نہیں دیتا بلکہ مین والٹن روڈ پر کوڑے کے لیے جو جگہ مخصوص ہے وہاں بھی حالت انتہائی ابدتر ہے۔ بدترین اور غلیظ ترین ماحول میں وہاں سے گزرنا بھی محال ہوجاتاہے ۔اسی طرح پیر کالونی کی گلی نمبر ون جو والٹن روڈ کو ڈیفنس کو ملاتی ہے ۔والٹن بورڈ کی غلیظ ترین گلی کادرجہ حاصل کرچکی ہے ۔اسی گندے ماحول میں سانس لینے سے بیماریاں انسانی صحت پر یلغار کررہی ہیں ۔ ڈینگی مچھروں کے خاتمے کے لیے سپرے کرنا تو دور کی بات ہے ۔والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کا عملہ مین والٹن روڈ سے گزرنے والا گندا نالہ بھی صاف کرنے سے معذور ہے ۔ جس کی وجہ سے بارش کا پانی نالے میں گرنے کی بجائے نالے سے باہر نکل کر والٹن روڈ پرجمع ہوجاتا ہے ۔حسن اتفاق سے ماہ رمضان میں مجھے ایک افطاری میں شرکت کے لیے جانے تھا لیکن ڈیڑھ دو فٹ پانی نے ہر جانب سے میرا راستہ رکھا تھا ۔چنانچہ نا چاہتے ہوئے بھی مجھے افطاری کے بغیر ہی گھر آنا پڑا ۔اگر اب بھی نالے سے گار نہ نکالی گئی تو والٹن روڈ تباہ اور مقامی میکنیوں کی زندگی اجیرن ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ جو اس شاہراہ سے صبح و شام گزرتے ہیں۔ والٹن بورڈ نے پینے کے وافر پانی کا انتظام تو کررکھاہے لیکن سیوریج کی ملاوٹ والے پانی کی وجہ سے مقامی لوگ معدے ¾ گردوں اور دیگر کئی موذی بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہر شخص بڑی بڑی بوتلیں اٹھا کر ٹریٹمنٹ پلانٹ کی جانب صبح و شام بھاگتا دکھائی دیتا ہے۔ ٹریٹمنٹ پلانٹ مین والٹن روڈ پر موجود ہیں۔ جن میں سے اکثر خراب ہی رہتے ہیں ۔ مین والٹن روڈ ہو ¾ پیر کالونی کی گلی نمبر 1 ہو یا شکیل پارک کی مین شاہراہ ¾ چھابڑی فروشوں اور دکانداروں کی تجاوزات نے سڑک کو انتہائی تنگ کررکھا ہے بلکہ ہر گھر کے آمنے تین تین چار چار فٹ کاتھڑا بنا کر سڑک کو مزید تنگ کردیاگیا ہے۔ ہر جگہ ٹریفک جام کا روٹین بن چکا ہے ۔ پھربورڈ کے تغافلانہ رویے کی بنا پر جس کا جہاں دل چاہتا ہے وہ گردن توڑ سپیڈ بریکر بنا کر اذیت کا سامان کرتا ہے۔سکولوںاور مساجد کے نزدیک جہاں سپیڈ بریکرز کی ضرورت ہے وہاں بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقررکردہ میعار کے مطابق خود سپیڈ بریکر تعمیر کرے اور اس پر ہیوی لائٹ بھی لگائے ۔ زیر تعمیر مکانوں کا ملبہ مہینوں گلی اور سڑک کی زینت بنا رہتا ہے ۔اس کے باوجود کہ بورڈ میںکتنے ہی انجینئر ¾ چیف انجینئر ¾ انچارج صفائی اور دیگر سٹاف موجود ہے لیکن سب مفادات کا چشمہ لگا کر اپنے اپنے دفتروں تک محدود رہتے ہیں ۔کو ئی بھی ان لاوارث کالونیوں میں آکر یہاںکے مسائل دیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات تو یہ ہے کہ ان آبادیوں میں مسجد اور سکولز کے نزدیک ویلڈنگ کی دکانیں قائم ہیں جہاں صبح سے شام کھلے عام ویلڈنگ ہونا ایک معمول کی بات ہے ۔جس سے نہ صرف سکول میں آنے اور جانے والے معصوم بچوں کی بینائی متاثر ہونے کا خدشہ ہے بلکہ نماز کی ادائیگی کے لیے آنے والے نمازیوں کے لیے بھی یہ امرتکلیف دہ ہے ۔ میں سمجھتاہوں یہ سب والٹن بورڈ کے ذمہ دار عملے کی نااہلی کی وجہ سے ہورہا ہے ۔والٹن بورڈ کے عملے کی نااہلی صرف ان آبادیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ کیولری گراﺅنڈ پارک بھی مدت دراز سے اس لاپرواہی اور تغافلانہ رویے کا شکار چلا آرہا ہے ۔ اس پارک میں ایک واٹر کولر موجودہے جو عرصہ دراز سے بند پڑا ہے ۔واک پر آنے والے مرد وزن ( جن میں بوڑھے ¾ بچے اور خواتین بھی شامل ہیں ) کو پینے کا پانی میسر نہ آنے کی بنا پر سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ مجبور لوگ ہاتھوں میں پانی کی بوتلیں اٹھا کر واک کرتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ بیت الخلا کی صفائی کا سرے سی ہی کوئی انتظام نہیں ہے۔اگر حاجت روائی کے لیے وہاں جانا پڑ جائے تو انتہائی بدبو اور غلیظ ماحول استقبال کرتا ہے اوربغیر حاجت روائی کے واپس لوٹنا پڑتا ہے ۔ سیکورٹی کا بہانہ بنا کر خالدمسجد والا گیٹ بند کرکے سیر کے لیے آنے والوں کے لیے ایک اور مشکل پےدا کردی گئی ہے ۔جہاں واک کے لیے آنے والے لوگ گاڑیاں اور بائیک کھڑی کر تے تھے ۔ بہرکیف ان تمام خرابیوںکا ازالہ ممکن توہے لیکن بورڈ کے اعلی اور ذمہ دار حکام ان متوسط طبقے کی آبادیوں میں آنے سے گبھراتے ہیں یا وہ اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔