دہائیوں سے فوجی، سول کشمکش میں گرفتار ملک کاایک اور امتحان، کچھ ہی برس پہلے ”فوجی راج“ کا باب ہمیشہ کے لئے بند کرنے کی گونج ”تازہ بغاوت“ میں پھر سے کھو گئی جب ٹینکوں، طیاروں سے لیس ”ہم وطن“ بھڑ گئے۔ ”صدر“ کے اعلان کے مطابق واقعی بغاوت کی بھاری قیمت چکانا پڑی.... تعداد محدود تھی مگر سزا بہت بڑی تعداد کو ملی حتیٰ کہ ہزاروں ”ججز“ بھی فارغ کردیئے گئے۔ ناکامی کی قیمت یقینا بھاری ہی ہوتی ہے، قسمت کا کھیل، جیت جاتے تو اعلان کرنے والے کسی قفس میں ہوتے۔ ہارنے والوں کے پاس دینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا سوائے جان کے.... ”واقف ترک حلقے“ تو کچھ اور ہی کہانیاں سنا رہے تھے۔ خیر ”اللہ تعالیٰ“ کرے کہ مُنی سی کوشش میں ڈھیر سارے مخالفین کو فارغ کرنے کی کارروائی سول ڈکٹیٹرشپ کو مزید مضبوط نہ کردے۔ اپنی ”شہ رگ“ (کشمیر) سے خون رس رہا تھا مگر سب سوئے رہے۔ اب یہ ”چھوٹا بڑا“ ترکی میں دھوم دھڑکے سے خون کرتا جارہا ہے۔ تعاون کا اظہار یک جہتی کا مظاہرہ اور ساتھ ہی اپنے حالات سے جوڑنے کی مہم کا آغازہر بری خبر ”میڈیا“ کےلئے ڈھیر سارا منافع، ریٹنگ کا فسادی فیول ”100% “ سے زائد شترے مہار چنیار، کہیں آگ لگے یا دھماکہ، بغارت، ڈگری ہولڈر، ان پڑھ، لاعلم، ”اینکر حضرات“ کا کارئل ترقی کیسے کرے گا؟ بغیر سوچے سمجھے کیمروں کو آن نہ کریں تو”مالکان“ کی کمائی کیسے بڑھی گی؟ پاکستان کی تصویر بہت واضح اور مختلف ہے۔ گردن تک تنگ لوگ ”ٹینکوں“ کو بھی ”ہار“ پہنا دیں گے۔ تالیاں بجانے والے ناکامی کے اسباب بھی معلوم کریں۔ ”بغاوت ناکام ہوئی“ یہ ایک ظاہری تصویر ہے مگر تصویر بہت ”مضبوط فریم“ میں ٹنگی ہوئی ہے۔ جمہوریت عوام کے ساتھ تعلق استوار رکھنے اور مسائل حل کرنےکا ذریعہ ہے۔ وہاں عوامی تعلق کے فلسفہ نے ڈلیور کیا جبکہ ادھر شخصیات کے ذاتی تحفظ، مفادات، کرپشن کو جمہوریت کہا جاتا ہے۔ ”ترک“ اگر ٹینک کے آگے لیٹے تو یہ حکومتی کارکردگی کا اعتراف ہے۔ اس قدم کو جمہوریت کے بچاﺅ کا نام نہیں دے سکتے، درجن کہانیوں کے باوجود ”صدر رجب“ مقبول بھی ہیں اور متنازعہ بھی، اضافی پیسے کمانے کےلئے روغنی نان بیچنے والا صدر بنا تو معاشی استحکام، ترقی، صفائی کا سمبل بن گیا۔ پچھلے دس برسوں سے مکمل جمہوریت توہمارے یہاں بھی ہے۔ بغاوت کو عوام نے کیوں کچلا۔ برسوں سے ”ترکی یاترا“ کا سحر جکڑے تھا۔ ترک لوگوں کی دو قابل پذیرائی خصوصیات جو کبھی بھی ”دماغ کی تاریخ“ سے اوجھل نہیں ہو پائیگی، وقت اور جسم کا صحیح استعمال، سڑکیں ہمہ وقت پیدل چلنے والوں سے اٹی نظرآئیں۔ پیدل اور کبھی سائیکلوں پر بوڑھے، جوان گھومتے نظر آتے ہیں۔ بس، ٹرین کا وقت پر پہنچنا کارنامہ نہیں سمجھا جاتا۔ ”ٹکٹنگ آن لائن“ بس سے لےکر ہوٹل تک ”انٹرنیٹ“ کی ترقی، فاصلاتی رابطوں، جغرافیائی حدود کو اپنی بادشاہت کے راج میں مقید کرچکی ہے۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہاتھوں سے لمبے چوڑے کاغذ، طویل شرائط کوپر کرنے اور رہائشی جگہ کے حصول واسطے تھکا دینے والی ”پیدل مارچ“ اتنی مار پڑتی تھی کہ 3، 4 دن بستر سے قدم نیچے نہیں لگتے تھے۔ اب تو ”دنیا آپ سے ایک بٹن کے فاصلے پر“ ہے۔ بس ایک کلک اور دنیا آپ کی پہنچ میں اور سہولتیں دروازے پر۔ یہ ایک ”بٹن“ ہی تو تھا کہ ”صدر طیب“ نے دبایا اور عوام ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ جس ”سوشل میڈیا“ کو تنقید، پابندیوں کا سامنا تھا وہی ذریعہ نجات بنا۔ خیال نہیں یقین ہے کہ ”آئی ٹی“ کی منافع بخش فوائد کی ٹوکری سے سارے میٹھے پھل ”دبئی بالخصوص ترکی“ نے چکھ لئے ہیں۔ ”ترک“ پہلے اچھے مسلمان تھے اب ”اچھے انسان“ ہیں۔ تجزیہ ہے کہ تمام تر ترقی، خوشحالی کے پس پردہ کلیدی کردار یہی وصف تھا۔ ”ترک شخصیت“ کی ایک اور خصوصیت، وہ اپنے دماغ کو استعمال کرتے ہیں۔ اپنے معاملات میں ہوشیار، سیانے اور وقت، لوگوں سے فوائد سمیٹنے میں سب سے آگے، قومی و عالمی مسائل پر اپنی رائے کا تعین خود کے الفاظ میں کرتے ہیں۔ ہر ”ترک“ عالمی سیاست، اقتصادیات کے تازہ ترین بلیٹن سے واقف ضرور ہے مگر دوسروں کے معاملات میں دخیل ہونا پسند نہیں کرتا۔ (ترک قیادت کا رویہ مختلف ہے تبھی بحرانوں میں پھنستی جارہی ہے) جبکہ ہم نے اپنے اذہان ”بے لگام میڈیا“ کے چند اینکر بادشاہت کی ”خالی دماغی تجوری“ میں لاک کروا دیا ہے۔ جو وہ فرما دیں، ہم ذہن کی کھڑکی کھولے بنا آگے ٹرانسفر کردیتے ہیں۔ اپنی کوئی رائے نہیں، فیصلہ سازی کی صلاحیت محض ”ایک بٹن“ دباتے ہی محبوس.... بڑا منفرد تجربہ رہا۔ پختہ، خوبصورت اینٹوں سے بنی سڑکوں پر لوگ، سائیکل، کاریں اور میٹرو ٹرین چل رہی ہے، دلکش طرز تعمیر کے عکاس فٹ پاتھ، پورا ترکی ”ایک کنبے“ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ثبوت بمباری، فائرنگ کے باوجود ”صدر رجب“ عوام کے درمیان پہنچ گئے۔ بغاوت نے ناکام ہی ہونا تھا یہاں تو ”ایک فون“ پر بہادر دھاڑنے والے ”باہر“ بھاگ جاتے ہیں۔ جمہوریت دلوں میں ہو تو بھاگنے، تاویلات کرنے کی نوبت کیوں آئے۔ ”ترکی“ میں شہروں اور دیہات میں ترقی، انفراسٹرکچر، شہری سہولتوں کے لحاظ سے ”ریاست“ کا کوئی ”سوتیلاپن“ نظر نہیں آتا۔ ہر ”کوس“ پر شہریوں کے شرام، سکون، سلامتی کی محافظت کرتی دکھائی دی۔ ایک شہر سے دوسرے شہر تک دوران سفر، ہر تھوڑے فاصلے پر خوبصورت ٹائلز سے بنے ”پانی ٹینک“ بنے ہوئے تاکہ پیاس یا منہ ہاتھ دھونے میں مسافروں کو دقت نہ ہو۔ مسافروں کی سہولت کا خیال رکھنے کا یہ تصور بیحد بھلا معلوم ہوا، اس کے ساتھ پرانا قصہ یاد آ گیا۔ ایک ”فیملی ممبر“ نے ”موٹروے“ پر الیکٹرک واٹر کولر لگانے کی خواہش میں معاونت کا اظہار کیا۔ صدحیف اجازت نہیں لے سکے کیونکہ ایسا کرنے میں پاکستانیوں کو ”مفت پانی“ میسر آ جاتا جو ہماری ”کمشن کما¶ بیورو کریسی“ کو قطعاً گوارا نہیں تھا۔ کئی جگہ غلط فہمی سے غلط سٹیشن پر اترنا پڑ گیا۔ ہر مرتبہ میٹرو ٹرین کے اہلکار نے بغیر ناراضگی مزید ٹکٹ لینے پر اصرار کی بجائے صرف اتنا کہنے پر کہ غلطی سے ہو گیا۔ ریلیف دیا۔ حقیقت یہی ہے کہ انسانی زبان کا بھی بھرم، اعتماد ہے۔ ایک ہی زبان سے سچ اور جھوٹ نکلتا ہے۔ جھوٹ ہمیشہ گرفت میں آتا ضرور ہے جبکہ سچ اور غلطی مان لینے میں زندگی آسان اور معاشرہ ترقی کی منازل طے کرتا ہے۔ اس لئے وہاں عوام ”صدر“ کے ساتھ کھڑے دکھائی دیئے۔ ہم بھی آجکل جھوٹ اور سچ کی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔ تبھی تو دنیابھر میں تنہائی بڑھتی جا رہی ہے۔ جدید بس ٹرمینل واقعی سہولتوں سے آراستہ، کشادہ، خوبصورت، بسیں، سمارٹ اُجلی سفید شرٹس پینٹ میں ملبوس ٹائی لگائے بوڑھے، جوان، حُلیے اور گفتگو، کہیں سے بھی ڈرائیور اور بس سٹاف معلوم نہیں ہو رہے تھے۔ نہ شور، نہ پھیری والے کی آواز، سب سے بڑھ کر کوئی بھی مسافروں کے پیچھے نہیں بھاگا نہ گھیرنے کے لئے کسی نے ہانکا لگایا۔ انسان اگر گھیرے اور ہانکے سے محفوظ ہو جائے تو ڈھیر ساری مشکلات سے بچ سکتا ہے ادھر ”بس سے لیکر سیاست“ تک گھیرنے اور ہانکنے کی پالیسی نے ہم کو اتنا مشکوک کر کے رکھ دیا ہے کہ آج دنیابھر میں ”سوالیہ نشان“ کی سٹیج پر کھڑے ہیں۔ سفر مختصر تھا یا طویل، مختصر وقفوں کے بعد کافی، چائے، مشروبات کے ساتھ مختلف ٹائپ کی ٹافیاں بسکٹ پیش ہوتے، ایک ٹکٹ میں سو مزے ”اس سفر نے محاورہ غلط کر دیا“۔ ”پاموکالے“جاتے ہوئے ”انقرہ یونیورسٹی“ کے پروفیسر سے خوب گپ شپ رہی۔ ”70 سال کا بابا“ مستقل رابطہ کے لئے کہنے پر بیگ کھولا۔ فون کو چارجز پر لگانے کے بعد کمپیوٹر نکالا۔ انوکھا تجربہ تھا۔ سنی سنائی کہانیوں کے پس منظر میں کہ ”مسلمان تعلیم کی طرف نہیں جاتے۔ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ درجن بھر ڈگریوں کے حامل ہونے کے باوجود مزید علم حاصل کرنے کے مشتاق.... سونے پر سہاگہ ڈگریوں کی قدر افذائی کا بھی پورا اہتمام، اچھی تعلیم کے عوض باعزت پرسہولت روزگار یقینی ہے۔ اس یقین نے ”بغاوت“ کو ناکام کیا، جمہورت کے عشق نے نہیں۔ ہم میں اور ان میں ایک قدر مشترک بھی ہے مگر فرق کے ساتھ ہم کھانے پینے کا ڈھیر سارا سامان لے کر سفر کرتے ہیں اور سامان ”ترک“ بھی اٹھاتے ہیں مگر جدید ترقی کے لوازمات کمپیوٹر، چارجر یا اخبار، کتاب اُدھار نہیں مانگتا جبکہ ہم سروس اکا¶نٹس میں جمع ہیں اور عوام سے ووٹ لیکر، عوام کو ادھار رکھوانے کے بعد بھی باز نہیں آ رہے۔ وہاں راستہ پوچھنے یا کسی شہر کی معلومات درکار ہوتیں۔ مقامی ”پولیس والے“ سے تو فوراً موبائل آن کر کے رہنمائی کرتا۔ ادھر پوچھنے پر کئی مرتبہ ”بریکنگ نیوز“ چل پڑتی ہے۔ پانی مانگنے پر بس سٹاف کی جھڑکیاں، گُھوری، دیکھنے کو ملتی ہے۔ تعلیم، روزگار کی یقینی فراہمی اور سہولتوں کے استعمال کی آگاہی زیادہ ہے۔ ہم نے میٹرو سے لیکر صفائی تک مشینری تو جدید کر دی مگر استعمال کرنے کی تعلیم نہ دے سکے۔ وہاں ایک وقت میں سب کچھ چل رہا ہوتا ہے مگر ادھر ایک ”میٹرو ٹرین“ گزارنے کے لئے ”پولیس والے“ کھڑے کرنا پڑے۔ یہ ہے فرق ایک جمہوریت اور کارکردگی میں۔ سب کچھ اچھا وہاں بھی نہیں مگر جو کچھ عوام کو چاہیے حقیقتاً منظرعام پر موجود ہے یہاں ”ون ونڈو سیل“ بھی ہے مگر کام مہینوں بعد ہوتا ہے وہ بھی سفارش پر۔ جدید کام یہاں بھی ہوتے اور ہو رہے ہیں مگر سہولتیں اشتہارات میں زیادہ عملاً ناپید، دنیا واقعی ”ایک بٹن کے فاصلے پر ہے“ تبھی تو ایک کلک پر شہری سڑکوں پر آ نکلے کیونکہ ”بٹن“ دبانے والے نے اپنے عوام کو بہت کچھ فراہم کر رکھا ہے۔