10 جولائی 2017 کو جے آئی ٹی نے پانامہ لیکس پراپنی رپورٹ پیش کر دی اور سپریم کورٹ نے رپورٹ کو پبلک کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ رپورٹ کیا تھی ایک طوفان جس نے شریف خاندان اور وزیراعظم نواز شریف کو نہ صرف ملوث ٹھہرایا بلکہ نیب کو ریفرنس بھیجنے کی بھی سفارش کی۔ قدرتی طور پر عمران خان اور اپوزیشن پارٹیوں نے نہ صرف خوشی کا اظہار کیا بلکہ وزیراعظم کے استعفٰی کا بھی مطالبہ کیا۔ حکومتی ترجمانوں نے رپورٹ کو مسترد کیا اور اعلان کیا کہ سپریم کورٹ میں چیلنج کرینگے۔ 13 اگست کو وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ وزیراعظم نے کہاکہ میرا ضمیر اور دامن صاف ہے کرپشن کے ثبوت دئیے جائیں۔ سیاست میں کمایا کچھ نہیں گنوایا بہت ہے۔ سازشی ٹولے کے کہنے پراستعفیٰ نہیں دونگا۔ رپورٹ ذاتی کاروبار پر مفروضوں اور الزامات کا مجموعہ ہے جبکہ رپورٹ میں استعمال کی گئی زبان میں بدنیتی نظر آرہی ہے۔ 14 جولائی کو مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ حربے استعمال کر کے پاکستان کو پیچھے دھکیلا جا رہا ہے لیکن میں ایسے نہیں ہونے دونگا۔ انشاءاللہ عوام کیلئے آخری حد تک لڑونگا اور استعفیٰ نہیں دونگا۔ دل کرتا ہے سب کچھ کہہ دوں ایسا وقت ضرور آئیگا مینڈیٹ پر تیسرا حملہ ہے سپریم کورٹ بات سنے گی۔ حکومتیں ہمیشہ کرپشن اور سکیورٹی رسک کے الزام پر نکالی گئیں۔ ضمیر مطمئن، دامن پر کوئی داغ نہیں استعفیٰ مانگنے والے بدترین مخالف ہیں۔ انہوں نے ووٹ نہیں دیئے، عدلیہ کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کیا۔ میں جمہوریت، رول آف لاءاور عدلیہ کی آزادی پر یقین رکھتا ہوں۔ پارلیمانی پارٹی نے نواز شریف پر مکمل اعتماد کا اظہار کیا اور کہاکہ رپورٹ جھوٹ کا پلندہ ہے جسے 2 ماہ نہیں بلکہ کافی عرصے پہلے تیار کیا گیا جبکہ یہ رپورٹ تضادات کا مجموعہ ہے۔ اکثریت کے خلاف اقلیت کی سازش ناکام ہوگی جبکہ سازش میں بیرونی ہدایت کار اور اندرونی اداکار ملوث ہیں۔ میاں شہباز شریف اور وفاقی وزیروں نے کہاکہ پانامہ غیرملکی سازش ہے ٹانگیں کھینچنے کی لڑائی کوئی نہیں جیت سکے گا سب ہاریں گے۔ اقتدارکیلئے تماشا لگانے والے ہوش کریں الزام تراشی کی سیاست ملکی خوشحالی کیلئے زہر قاتل ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور پیپلزپارٹی نے بڑے زور سے مستعفی ہونے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے اور کہاکہ نواز شریف کے خلاف کارروائی پر بھارت میں کہرام برپا ہے اور اسے ڈر ہے کہ اسکا اتحادی نواز شریف نہ چلا جائے۔ دنیا بھر میں وزیراعظم جھوٹ بولنے پر استعفیٰ دے دیتے ہیں لیکن یہاں اقتدار بچانے کی کوشش میں جھوٹ نہیں جھوٹوں کی بارش ہو رہی ہے۔ عمران خان نے کہاکہ اگلے ہفتے نیا پاکستان دیکھ رہا ہوں۔ پی پی پی نے مطالبہ کیاکہ میاں صاحب گھٹ گھٹ کر نہ جیئیں بتائیں سازش کون کر رہا ہے کرپشن چھپانے کیلئے اداروں کے ساتھ تصادم نہ کریں۔ میاں نواز شریف 1994 اور 1997 میں بھی وزیراعظم رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے پہلے شخص ہیں جو تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں۔ اس لحاظ سے انہیں حکومت اور سیاست کا وسیع تجربہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پچھلے دونوں ادوار میں انکی حکومتیں مدت پوری نہیں کر سکیں۔ 1990 والی حکومت میں صدر غلام اسحاق خان سے اختلاف کے نتیجے میں حکومت ختم ہوئی جبکہ 1997 والی حکومت کو جنرل مشرف نے چلتا کیا۔ تیسری حکومت مدت پوری کرنے کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن سخت ترین بحران میں مبتلا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ماضی میں اداروں کے ساتھ clash کر کے میاں نواز شریف سمیت کوئی اپنی حکومت نہیں بچا سکا۔ جس کے نتیجے میں ملک و قوم کو نقصان پہنچا معیشت پیچھے چلی گئی اور جمہوریت کیلئے لمبی جنگ لڑنی پڑی۔ 1999 میں تو میاں نواز شریف کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں اور جلاوطنی میں کئی سال گزارے۔ قید و بند سے یہ ضرور سبق سیکھا کہ بدترین مخالف بے نظیر بھٹو کے ساتھ جمہوریت کی بحالی کیلئے اتحاد قائم کیا اور بعد ازاں میثاق جمہوریت پر دستخط کئے۔ بحرحال مذاکرات اور معاملہ فہمی ہی اصل طریقہ ہوتا ہے۔ تصادم سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید الجھتے ہیں۔ آج بھی مذاکرات نہ کرنے اور دھمکیاں دینے سے معاملات الجھ رہے ہیں۔ نواز شریف کے ساتھی انہیں آگ کی طرف لے جا رہے ہیں میں یہ نہیں کہتاکہ وہ جان بوجھ کر ایسا کر رہے ہیں لیکن کم عقلی ضرور ہے۔ پاکستان اور میاں نواز شریف کی تاریخ مذاکرات کے ذریعے معاملات کو حل کرنے پر بھری پڑی ہے۔ جنرل ایوب خان کی آمریت کے خلاف اپوزیشن نے بھرپور تحریک چلائی۔ جنرل ایوب نے اپوزیشن کا سخت مقابلہ کیا لیکن پھر بھی گول میز کانفرنسیں کیں۔ ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف پاکستان قومی اتحاد نے الیکشن میں دھاندلی کے الزام پر تحریک چلائی۔ بھٹو حکومت اور قومی اتحاد نے مذاکرات کئے۔ اسی طرح خود میاں نواز شریف نے غلام اسحاق خان کے ساتھ لڑائی کے دوران جنرل وحید کاکڑ کو درمیان میں ڈال کر مذاکرات کئے۔ بے نظیر بھٹو نے پاکستان آنے سے پہلے جنرل مشرف کے ساتھ مذاکرات کئے اور NRO بنایا گیا۔ مولانا فضل الرحما ن جیسے لوگ کسی کے ساتھ نہیں ہوتے۔ انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ سابقہ حکومت کی بیوہ، موجودہ حکومت کی منکوحہ اور آنے والی حکومت کی منگیتر ہے۔ ایسے لوگوں کے مشورے سے مرنے اور مارنے کی باتیں کرنا مناسب نہیں۔جناب وزیراعظم! آپ کو مذاکرات کرنے چاہئیں۔ اپوزیشن کے پاس جانا چاہئے خاص طور پر عمران خان کے گھر جائیے اور مل جل کر موجودہ بحران کا حل تلاش کریں۔ ذوالفقار علی بھٹو قومی اتحاد کی تحریک کے دوران مولانا مودودی کے گھر چلے گئے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ یہ آگ اور پانی کا ملاپ کیسے ہو گیا ایک لیفٹ کا نمائندہ اور دوسرا رائٹ کا۔ آج تویہ صورتحال نہیں ہے۔ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں Right of Center کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جو حکومت اور طاقت میں ہوتا ہے اس کو بڑے پن کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ دانشور کہتے ہیں کہ نئے الیکشن سے بحران ختم ہو سکتا ہے۔ عوامی مینڈیٹ لیا جائے تو اس میں کیا برائی ہے۔ صرف اس لئے لڑائی نہیں لڑنی چاہئے کہ مارچ میںسینٹ کے الیکشن ہو جائیں۔ صرف اس لئے مرنے اور مارنے کی بات نہیں ہونی چاہئے کہ اربوں روپے کے منصوبے مکمل ہونے والے ہیں۔ صرف اس لئے ملک کو بحران میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے تاکہ آئندہ الیکشن میں کامیابی مل سکے۔ آپ کو یاد کرانا چاہتا ہوں کہ جنرل مشرف کے دور حکومت میں چوہدری پرویزالٰہی اور دوسرے حکومت کرنے والوں نے جتنے ترقیاتی کام کئے تھے اسکی مثال نہیں ملتی لیکن لوگوں نے ووٹ نہیں دئیے۔ ترقیاتی کاموں پر بلدیاتی انتخاب میں ووٹ ملتے ہیں ناکہ عام انتخابات میں۔ قومی انتخابات میں سوچ اور لیڈرشپ کو ووٹ ملتے ہیں۔ اس لئے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ جنرل قمر جاویدبا جوہ اور DG ISI سے آپ کے اچھے تعلقات ہیں ان سے فائدہ حاصل کریں ناکہ انکے اداروں کو دھمکیاں دیں۔ فوج اور عدلیہ پاکستان کے ادارے ہیں وہ ملک و قوم کیلئے سوچتے ہیں۔ قانون اور آئین کے تحت چلنا چاہتے ہیں کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ساتھ جمہوریت کو مضبوط بنانا چاہتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ”نواز شریف، عمران خان ملاقات“ میں معاملات حل ہو جائینگے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کو بھی اعتماد میں لیں۔ اناءکا مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔ تصادم نہیں حل چاہئے جہاں تک سازش کے الزام کا تعلق ہے تو فوجی ترجمان نے سازش کے الزام کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ پانامہ لیکس سے متعلق جے آئی ٹی کی کارکردگی اور رپورٹ سے پاکستانی فوج کا براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی فیصلہ بھی اسی نے کرنا ہے پاک فوج آئین کی عملداری چاہتی ہے۔ ہمیں سب سے پہلے ملکی مفاد کو دیکھنا ہے۔ اس اعلان کے بعد حکومت کو سازش کی بات کرنا بند کر دینی چاہئے۔ جہاں تک سپریم کورٹ میں پانامہ لیکس کے مقدمے کے دفاع کا تعلق ہے تو وہ ضرور کرنا چاہئے لیکن سیاسی معاملات کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہئے اور کسی تاخیر کے بغیر نواز شریف کو بنی گالہ جانا چاہئے۔ پہل کرنے میں زیادہ عزت ہے ملاقات جتنی جلدی ہوسکے کرنی چاہئے ”ایسا نہ ہوکہ دیر ہو جائے“۔