اور جی کا جانا ٹھہر گیا

Jul 18, 2017

عارفہ صبح خان

فوج کا بہترین کردار اور وطن کیلئے ایثار سامنے آ گیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کی پریس کانفرنس سے بہت سے ابہام دور ہو گئے۔ میجر جنرل آصف غفور نے ہر موضوع پر کھل کر بات کی ہے۔ پاکستانی قوم کو پاک فوج پر اعتبار ہے اور فخر ہے آصف غفور نے یہ بات بھی اچھی طرح واضح کر دی کہ آئی ایس آئی، ایم آئی ارکان نے محنت، جانفشانی اور دیانتداری سے اپنا کام کیا ہے۔ اب فیصلہ عدالت نے کرنا ہے۔ فوج کی طرف سے یہ بیان بہت اہم ہے۔ جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی تشکیل کردہ تھی۔ سپریم کورٹ نے بہت جانچ پرکھ کر اس ٹیم کا انتخاب کیا۔ اس ٹیم کا ہر رکن نہایت فعال اور مستعد تھا اور وہ کسی بھی دباﺅ یا لالچ میں نہیں آیا۔ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کو جو رپورٹ پیش کی ہے۔ پوری قوم نے جے آئی ٹی کی بہادری اور کارکردگی کو سلیوٹ کیا ہے۔ ملک میں پہلی مرتبہ حق اور انصاف کیلئے آواز اٹھائی گئی ہے۔ قائداعظم نے جان پر کھیل کر ملک بنایا اور اس ملک کو منافقین اور غاصبین نے دونوں ہاتھوں سے لوٹا۔ میاں نواز شریف نے جے آئی ٹی کی رپورٹ پر دو دن بعد جو بیان دیا وہ یہ تھا کہ میں عوام کی خاطر استعفیٰ نہیں دونگا اور آخری دم تک لڑوں گا۔ کاش! میاں نواز شریف یہ آخرت جھوٹ بھی نہ بولتے۔ انکے عہدِ حکومت میں عوام جس جس کرب، دکھ، نا انصافی، محرومی، لوڈ شیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور مظاہروں احتجاجوں سے گزری ہے تو کون پاگل ہو گا جو کہے گا کہ جناب آپ استعفیٰ نہ دیں۔ اگر آپ کی کارکردگی اچھی ہوتی اور آپ کو عوام کا درد ہوتا یا آپ نے عوام کیلئے کچھ کیا ہوتا تو پورا پاکستان آپکے ساتھ کھڑا ہوتا بلکہ سپریم کورٹ تک یہ معاملہ ہی نہ پہنچتا۔ سچ تو یہ ہے کہ پاکستان میں صرف کرپٹ مافیا اس سارے عرصے میں چھایا رہا۔ میرٹ کا جتنا قتل عام ن لیگ حکومت میں کیا گیا ہے اگر سپریم کورٹ جے آئی ٹی ارکان سے ایک سروے یہ بھی کرا لیتی تو ن لیگ کو ہمیشہ نا صرف نا اہل قرار دے دیتی بلکہ سزا بھی سنا دیتی۔ پاکستان میں اہل لوگوں کی جگہ خوشامدیوں، چاپلوسوں، قصیدہ خوانوں، ابن الوقتوں اور کرپٹ مافیا کو اہمیت اور عہدے دیئے گئے۔ یہی نہیں حکومت اور حکومتی وزراءاہلکار سبھی نے تمام وقت اپوزیشن کو لتاڑنے اور پچھاڑنے میں گنوایا۔ عوامی بہبود کے حوالے سے کام نہیں کئے۔ ریلوے حادثات پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہوئے، سینکڑوں افراد ریلوے کی نا اہلی کی وجہ سے موت کے منہ میں گئے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق اپنی وزارت میں کام کرنے کے بجائے سارا وقت میڈیا میں بیانات داغتے اور اپوزیشن کو گالیاں دیتے رہے۔ ن لیگ کی حکومت نے سارا وقت جھوٹ، پروجیکشن، الزامات، پریس کانفرنسوں میں برباد کیا۔ اسحاق ڈار نے اپنے بچوں کو ارب پتی بنا دیا اور چیریٹی کے نام پر کرپشن چھپانے کی کوشش کرتے رہے۔ اسحاق ڈار نے پاکستان کی تاریخ میں اتنے قرضے لئے ہیں کہ پاکستان کا بال بال نہیں، رواں رواں قرضوں میں جکڑ دیا ہے۔ پاکستان کی معیشت کی تباہی کا اندازہ کریں کہ امریکہ پاکستان سے بات کرنے کا روادار نہیں۔ بھارت حقیر سمجھتا ہے۔ افغانستان جیسا پسماندہ ، تباہ حال، بے اعتبار ملک بھی پاکستان کو منہ نہیں لگاتا۔ بنگلہ دیش شدید نا پسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ ایران بھروسہ کرنے کو تیار نہیں۔ سعودی عرب ہر ہفتے پاکستانیوں کو تنخواہیں دیئے بغیر نکال رہا ہے۔ یہ ہے ن لیگ کی سفارت کاری، کہ چار سال میں سینکڑوں لیگی کارکن ہونے کے باوجود سب سے زیادہ ایم این ایز اور سینیٹرز ہوتے ہوئے پاکستان کا ایک بھی وزیر خارجہ نہیں۔ یہ نواز شریف کا اندر کا خوف ہے کہ کہیں وزیر خارجہ کے غیر ملکی سربراہان سے تعلقات نہ بن جائیں۔ اسحاق ڈار سب سے نا اہل وزیر خزانہ ثابت ہوئے ہیں جن کی وجہ سے پورا ملک قرضوں میں ڈو ب گیا ہے اور روپیہ کی قدر اس قدر گر گئی ہے کہ پاکستانی روپے کی کوئی حیثیت نہیں رہی اور ڈالر اس عرصے میں کہاں جا پہنچا ہے۔ خواجہ آصف نے نہ تو ڈیم بنوائے نہ بجلی کے پروجیکٹس پر کام کیا لیکن اپنے سخت لب و لہجے میں زیادہ تر اپوزیشن پر بجلیاں گراتے رہے اور کارکردگی زیرو رہی۔ عابد شیر علی بھی انہی کے زیر سایہ رہے اور سوائے گالی گلوچ، دھمکیوں اور للکارنے کے کوئی کام کر کے نہیں دکھایا۔ ایک لمبی فہرست ہے ن لیگی وزراءکی جن کی کارکردگی روز اول سے ناقص رہی ہے۔ اب جبکہ تمام اپوزیشن جماعتیں بیک زبان نواز شریف کو استعفیٰ دینے کا کہہ رہے ہیں۔ چوہدری شجاعت حسین جیسا دھیما مزاج آدمی بھی علی اعلان کہہ رہا ہے کہ نواز شریف فوراً مستعفی ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ سراج الحق جو فطرتاً نرم طبیعت کے مالک ہیں، انہوں نے بھی کیس سپریم کورٹ میں جانے کے بعد سے یہی ایک بات تواتر سے کہی ہے اور کہے جا رہے ہیں کہ نواز شریف کو عہدہ چھوڑ دینا چاہئے اور استعفیٰ دیکر عدالت کے سامنے پیش ہونا چاہئے۔ بلاول بھٹو نے زبردست بات کہی ہے کہ اگر جمہوریت کا شور مچاتے ہیں تو وزیراعظم استعفیٰ دیکر جمہوریت بچائیں۔ اب تو آصف زرداری نے بھی ہر قسم کی مدد سے ہاتھ اٹھا لیا ہے حالانکہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی مشرف کے وقت سے چل رہی ہے لیکن اب آصف زرداری کو اندازہ ہو گیا ہے کہ نواز شریف کی صفوں میں دراڑ پڑ چکی ہے اور نواز شریف پارٹی کی سطح کے علاوہ عوامی سطح پر ہر طرح کی حمایت اور اعتبار کھو چکے ہیں۔ فاروق ستار اور پاک سر زمین پارٹی نے بھی وزیراعظم کو مستعفی ہونے پر زور دیا ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے نواز شریف کی آج تک جتنی حمایت کرنی تھی کرلی آج کے بعد سے پوری قوم مولانا کا یوٹرن دیکھے گی۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ن لیگ 1982ءسے 2017ءتک اقتدار میں رہی ہے ۔ سوائے چند سال کے۔ 35 سال میں سے 28 سال اقتدار کے جھولے لئے ہیں لیکن عوام اور پاکستان کیلئے کیا کیا ہے دونوں بھائی برسوں سے ساٹھ کے پیٹھے میں ہیں اس میں 35 سال سے سیاست میں ہیں پھر انکا بزنس اکیلے میاں شریف نے سینکڑوں سے کھربوں میں کیسے منتقل کر دیا۔ وزیراعظم کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ اچھا ہوتا کہ با عزت طریقے سے جاتے۔ یہ ن لیگ کے آخری دن ہیں۔ چوہدری نثار تک سے پھڈا لے لیا۔ چوہدری شجاعت نے درست کہا ہے کہ حقیقی لیگیوں کے اکٹھے ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ چوہدری شجاعت اور پرویز الٰہی کیلئے سنہری موقع ہے کہ وہ منتشر مسلم لیگ کو یکجا کریں اور آئندہ حکومت سنبھالیں کیونکہ اس وقت سب سے زیادہ جس کے ہاتھ صاف ہیں اور جنہیں پاکستان کا درد ہے وہ ق لیگ ہے۔ ن لیگ کا جانا ٹھہر گیا۔ اب ازالے کا وقت نہیں رہا

مزیدخبریں