چوہدری سرور ثقہ سیاست دان ہیں۔ ان کا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لیکر گلاسگو اور پھر وطن واپسی کا سفر دلچسپ ہے اور سبق آموز بھی! ہماری ان سے پرانی یاد اللہ ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان سے ملاقات پہلے ہوئی اور تعارف کئی سال بعد ہوا۔ 1990ء کی دہائی میں میں اپنے ’’گرائیں‘‘ ملک غلام ربانی کی دعوت پر گلاسگو گیا۔ ملک صاحب اسکاٹ لینڈ میں بابائے امن کے نام سے مشہور ہیں۔ ایک طویل عرصہ سے وہاں قیام پذیر ہیں۔ ملکہ برطانیہ نے انہیں (O.B.E) آرڈر آف برٹش ایمپائر کا خطاب دیا ہے۔ چوہدری سرور و دیگران کو سیاسی دائو پیچ انہوں نے ہی سکھلائے ہیں۔ معاشی اعتبار سے انکے شاگرد ٹائیکون بن گئے ہیں لیکن یہ بوجوہ ’’سفید پوشی‘‘ سے آگے نہیں بڑھ پائے۔ باایں ہمہ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی بھی دورِ ابتلا میں انہوں نے مدد اور معاونت کی۔ پاکستان کے ادیبوں اور شاعروں میں خاصے مقبول ہیں۔ اسکی بھی ایک معقول وجہ ہے۔ جو بھی ان سے قرض حسنہ مانگے، انکار نہیں کرتے۔ قرض حسنہ وہ ادھار ہوتا ہے جو کبھی ادا نہیں ہوتا۔ جب قرض خواہ رقم کی واپسی کا مطالبہ کرے تو مقروض ہنسنا شروع کر دیتا ہے۔ ملک صاحب کا معاملہ مختلف ہے۔ جب قرض دار نامساعد حالات کا عذر لنگ پیش کرتا ہے تو اُلٹا ملک صاحب مسکرانے لگتے ہیں۔
(2) ملک صاحب نے میرے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا اورگلاسگو کے ہر قابل ذکر پاکستانی کو مدعو کیا۔ کھانے سے پہلے رسمی تعارف کا سلسلہ شروع ہوا تو چوہدری سرور بولے ’’میں شاہ صاحب کو اس وقت سے جانتا ہوں جب یہ 1972ء میں لائلپور میں سٹی مجسٹریٹ تھے۔ میں گورنمنٹ کالج میں سٹوڈنٹ لیڈر تھا۔ جب ہم نے حکومت کیخلاف جلوس نکالا تو میرے ’’گٹے‘‘ (ٹخنے) پر پہلی سوٹی شاہ صاحب نے ماری تھی‘‘۔ ’’وہ سوٹی ہی آپکو لیڈر بنا گئی‘‘۔ میں نے برجستہ کہا۔ محفل کشت زعفران بن گئی۔ گو بات لطیف پیرائے میں ہو رہی تھی لیکن درحقیقت چوہدری صاحب میں سیاست کے جراثیم اس وقت بھی موجود تھے… یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ ایک تنگ دست نوجوان کلرکی کرنے کے بعد سرور انڈا فروش مشہور ہوا اور ایک طویل جدوجہد کے بعد نہ صرف بہت بڑا سرمایہ دار بن گیا بلکہ سیاست کے میدان کا بھی شہسوار نکلا۔ ممبر برٹش پارلیمنٹ، لیبر پارٹی کا لیڈر، وزیراعظم ٹونی بلئیر کا ذاتی دوست ، برطانوی سوسائٹی کتنی ہی tolerant کیوں نہ ہو لوگوں کو کالے کی ترقی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ چنانچہ ان کیخلاف سازش کا جو جال بُنا گیا اس میں برطانوی پریس پیش پیش تھی۔ ڈالر اسکینڈل کے علاوہ کئی اور اسکینڈلز کھڑے کئے گئے لیکن یہ ہزار دام سے ایک جُنبش میں نکل گئے۔ انکو پھانسنے کا آخری حربہ بھی کارگر نہ ہوا۔ کہتے ہیں دوسری جنگ عظیم میں مصر میں تعینات ایک برطانوی جرنیل کو جرمنوں نے پھانسنے کی کوشش کی۔ ترغیب، تحریص، دبائو سے کام نہ نکلا تو انہوں نے اسکی کیمسٹری کا تجزیہ کیا، بالآخر اسے ایسی چیز پیش کی جسے جوش نے فتنہ خانقاہ کہا تھا۔ خون جنرل کی رگوں میں اسپ تازی کی طرح دوڑنے لگا، ہوش گُم، حواس گُم، اس نے ہیڈ کوارٹر کو لکھا۔
(Transfer me. They have reached my price.)
مخالفین نے کسی طور پتہ چلا لیا کہ گو چوہدری صاحب شاعر نہیں ہیں، غزل لکھتے نہیں ہیں لیکن پسند ضرور کرتے ہیں۔ عمر خیام کی نوخیز رباعی بھی انہیں رام نہ کر سکی۔ مخالفین کا ہر حربہ ناکام ہوگیا۔
(3) نہ جانے کب اور کیسے چوہدری صاحب کو پردیس میں ناصبوری کا احساس ہوا۔ جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ کون ویرانے میں دیکھے گا بہار! چنانچہ انہوں نے وطن میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کر لیا۔ ان کی دور رس نگاہ نے دیکھ لیا کہ شریف برادران جلاوطن ہیں لیکن غریب الوطن نہیں، انکی جڑیں مضبوط ہیں اور بالخصوص سارے پنجاب میں پھیلی ہوئی ہیں۔ چنانچہ انہوں نے شریف برادران کے ساتھ پینگیں بڑھانی شروع کر دیں۔ جب برطانوی حکومت نے انہیں ویزا دینے سے انکار کر دیا تو چوہدری صاحب نے اپنا اثر رسوخ استعمال کر کے ویزا دلوایا۔ اپنے اس احسان کا ذکر اکثر احباب کی محفل میں کیا کرتے لیکن ایک دن جب کسی تقریب میں میاں شہبازشریف نے بھی اظہار تشکر کیا تو احباب کو یقین ہو گیا کہ کچھ ہونیوالا ہے۔ چوہدری سرور کے سر پر ہما کسی وقت بھی بیٹھ سکتا ہے۔ ان کی اہمیت اس قدر بڑھی کہ پنجاب کی تمام بیورو کریسی انکی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہو گئی۔ ان کی چٹ پر چیف سیکرٹری لگنے لگے۔ آئی جی، بھائی جی کہہ کر انکے گھٹنوں کو چھوتے۔ جس طرح ہندو تیرتھ یاترا کرتے ہیں۔ گلاسگو یاترا نوکر شاہی کا ماحول بن گیا۔
(4) چوہدری صاحب کی گورنری کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شریف برادران کو احسان چکانا تھا، سو چکا دیا۔ سرور صاحب کو مزید پیش رفت کیلئے ایک ٹھکانہ چاہئیے تھا، سو مل گیا! شاید اس بات کا چوہدری صاحب کو ادراک نہیں تھا گو گورنر ہائوس طویل و عریض ہے۔ عہدہ نام کی حد تک منصب جلیلہ ہے۔ لاٹ صاحب۔ لیکن درحقیقت گورنر ایک ربر سٹیمپ ہے۔ مٹی کا مادھو۔ دریوزہ گر آتش بیگانہ۔ Ambitious تو شروع سے ہی تھے، پبلسٹی کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔ پاکستان کو G. Plus اسٹیٹس دلوانے میں یقیناً انکا ہاتھ تھا۔ اس ضمن میں میاں نواز شریف نے جو اظہار تشکر کیا وہ خط بھی انہوں نے مجھے پڑھوایا۔ جب Self projection کا سلسلہ کچھ زیادہ بڑھا تو حکمرانوں کے کان کھڑے ہوگئے۔ حاسدین کو بات کرنے کا موقع مل گیا۔ میاں صاحب یہ آپکی کامیابیاں اپنے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ آپ سے زیادہ پاپولر بننے کی کو شش کر رہا ہے۔ چنانچہ قصر شاہی سے دو فرمان بیک وقت جاری ہوئے۔ چوہدری سرور کو متنبہ کیا گیا۔ اپنی حد میں رہو۔ نوکر شاہی کو ہدایت کی گئی ماننا گورنر کا کو ئی حکم نہیں اسی اثنا میں گورنر کے بچوں نے مری جا کر گورنر ہائوس میں ٹھہرنے کا تقاضہ کیا۔ جب سیکرٹری نے کیئر ٹیکر کو مطلع کیا تو معلوم ہوا۔ گورنر ہائوس خالی نہیں ہے۔ وہاں چھوٹا شہزادہ ٹھہرا ہوا ہے۔ شہزادہ گرما کے مثل صاعقہ طور ہو گیا۔ اسے غصہ اس بات کا تھا کہ گورنر کو جرأت کیسے ہوئی!
(5) غالب کا کمال یہ ہے کہ اسکے اشعار زندگی کی ہر سچوایشن پر منطبق ہو جاتے ہیں۔ بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے۔ برطانیہ کی شہرت گنوا دی۔ گورنری مشرقی شاعری کے محبوب کی طرح غچہ دے گئی۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ ہو گیا۔ مایوسی، کسمپرسی اور غیض کے عالم میں چوہدری صاحب نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرلی۔ میں نے ملک ربانی کے ذریعے انہیں مشورہ دیا کہ ایک غلطی دوسری کا جواز نہیں بن سکتی جلدی نہ کریں اور سوچ سمجھ کر قدم اٹھائیں۔ تحریک والوں کا خیال تھا کہ پارٹی میںایک اور Atm مشین کا اضافہ ہو گیا ہے۔ گلاسگو کا کروڑ پتی تاجر مالی مدد اور معاونت کریگا۔ دونوں خیال خام نکلے۔ چوہدری سرور کو جلد احساس ہوگیا کہ اسکی دال گلنے والی نہیں۔ جہاں جہانگیر ترین، شاہ محمود، علیم خان جیسے گرگان بارہ دیدہ اور گرم و سرد چشیدہ لوگ بیٹھے ہوں وہاں ’’طوطی کی آواز نقارخانے میں کوئی نہیں سنتا‘‘ والا محاورہ صادق آتا ہے۔ پارٹی کی مایوسی بھی کچھ کم نہ تھی۔ مالی اعتبار سے جیسے وہ شاخ نبات سمجھے تھے وہ برگ حشیش نکلا۔ گلاسگو کے تاجر نے پیسہ خون پسینہ ایک کر کے کمایا ہے۔ وہ ہیرا پھیریوں اور گھیریوں سے کروڑ پتی نہیں ہوا۔ ویسے طبعاً ہی چوہدری صاحب Tight Fisted ہیں۔ انکی بند مٹھی کھولنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
(6) معروضی حالات کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ چوہدری سرور بند گلی میں جا پہنچتے ہیں۔ سیاسی سرنگ کے آخری سرے پر روشنی کا نشان تک دکھائی نہیں دیتا۔ ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں تو دو قدم پیچھے سرک جاتے ہیں۔ خدا کرے ایسا نہ ہو لیکن قرائن اور شواہد سے لگتا ہے کہ Back Ward March شروع ہو چکا ہے۔ لاہور سے گلاسگو کچھ زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا۔ اورنگ زیب کے زمانے میں عاقل خان گورنر کابل تھا۔ وہ استعفٰے دیکر واپس آ گیا۔ ایک دن گھوڑے پر سوار محل کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ زیب النساء دختر اورنگ زیب نے اسے دیکھ کر شعر پڑھا۔
شنیدم ترک خدمت کرد عاقل خان ز نادانی
اس پر اس نے فوراً جواب دیا۔
چرا کارے کند عاقل کہ باز آید پشیمانی
یعنی عقلمند ایسا کام ہی کیوں کرے کہ بعد میںندامت اٹھانی پڑے اس وقت سے یہ جملہ ضرب المثل بن گیا۔
سابق گورنر پنجاب کو سابق گورنر کابل کے ان الفاظ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔