اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+ سپیشل رپورٹ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پانامہ عملدرآمد کیس کی سماعت سے قبل شریف فیملی نے جے آئی ٹی رپورٹ پر اپنے اعتراضات جمع کرا دیئے ہیں۔ جس میں شریف خاندان نے موقف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی سے 13سوالوں کے جوابات مانگے تھے لیکن جے آئی ٹی نے ہر معاملے پر حتمی رائے قائم کی، جے آئی ٹی نے ایسا کرکے اپنے مینڈیٹ سے تجاوز کیا۔ شریف خاندان کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جے آئی ٹی جانبدار تھی اور اس نے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا۔ اس لئے جے آئی ٹی رپورٹ کو مسترد کرتے ہیں۔ عدالت عظمیٰ سے استدعا ہے کہ ہماری درخواست منظور کرتے ہوئے جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کو مستردکیا جائے۔ درخواست میں جے آئی ٹی کے نمائندوں پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے، حالانکہ لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد حدیبیہ پیپرز ملز کیس پر تحقیقات نہیں کی جاسکتی۔ پوری تحقیقات جے آئی ٹی ممبران کی بدنیتی کو ظاہر کرتی ہے، اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے مختلف افراد کو قانونی فرمز کی خدمات لی گئیں، تمام شواہد قانون کے برخلاف اکٹھے کئے گئے، جے آئی ٹی کے حاصل کئے گئے شواہد قانون کے مطابق قابل قبول نہیں اور نہ قانون کی نظر میں جے آئی ٹی فائنڈنگ کی کوئی حیثیت ہے وزیراعظم نوازشریف نے سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پر گیارہ صفحوں پر مشتمل اپنے اعتراضات جمع کرائے ہیں جن میں استدعا کی گئی کہ زمینی حقائق مدنظر رکھتے ہوئے جے آئی ٹی کی رپورٹ کو یکسر مسترد کردیا جائے۔ وزیراعظم نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے برطانیہ میں تحقیقات کے لئے اپنے کزن کی فرم کی خدمات حاصل کرکے قانون کی خلاف ورزی کی۔ وزیراعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ شریف فیملی کے خلاف غیر تصدیق شدہ دستاویزات اور زبانی معلومات پر نتائج اخذ کئے گئے، جے آئی ٹی رپورٹ شکوک و شبہات، مفروضوں پر مشتمل ہے اور وزیراعظم کو عوام کی نگاہ میں بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ غیرجانبدار تحقیقات کے بغیر فیئر ٹرائل نہیں ہو سکتا، جے آئی ٹی نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے گواہان سے اپنی مرضی کے مطابق بیان لینے کی کوشش کی، گواہان پر نہ صرف نوازشریف کے حق میں دیئے گئے بیانات واپس لینے کیلئے دباو¿ ڈالا گیا بلکہ انہیں ہراساں بھی کیا گیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جے آئی ٹی نے عدالتی اختیارات استعمال کئے اور دستاویزات کے لئے غیرقانونی طور پر چیئرمین نیب کو بلایا جبکہ ایس ای سی پی اور سٹیٹ بنک کے نمائندوں پر اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ عدالت عظمیٰ میں دو جوابات (درخواستیں) جمع کروائی گئی ہیں ان میں عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی ایک درخواست میں جے آئی ٹی رپورٹ کے جلد نمبر 10 سے متعلق موقف اختیار کیا گیا ہے کہ جلد نمبر 10 فراہم نہ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اسے مشتہر نہ کرنا بدنیتی ظاہر کرتا ہے، کیس چلانے سے پہلے جلد نمبر دس فراہم کی جائے، جلد نمبر دس کی فراہمی کے بعد ہی وزیراعظم عدالت کے سامنے موقف پیش کر سکیں گے۔ وزیراعظم کی طرف سے جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کے نمائندے پر اعتراض کہ وہ آئی ایس آئی کا تنخواہ دار آفیسر نہیں۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں درخواست دائر کی ہے جس میں جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کی رپورٹ مسترد کرنے کی استدعا کی ہے۔ درخواست کے ہمراہ 2 سو سے زائد صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی داخل کرائی گئی ہیں جن میں 1983ءسے 2016 ءتک ویلتھ ری کانسی لیشن سٹیٹمنٹ‘ نیب کو لکھے جانے والے خطوط‘ جے آئی ٹی‘ ایف بی آر کے خطوط اور دوسری دستاویزات شامل ہیں۔ درخواست میں م¶قف اختیار کیا گیا ہے کہ ان کے بارے میں جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم نے حتمی رپورٹ میں مدعی کے بارے میں جو نتائج اخذ کئے ہیں وہ غلط اور بدنیتی پر مبنی ہیں اور یہ سپریم کورٹ کے بنچ کی جانب سے جے آئی ٹی کو دیئے جانے والے مینڈیٹ سے بھی تجاوز ہے۔ جے آئی ٹی نے ان سے آمدن یا دولت کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ ان کے تمام اثاثے اور پیسے ظاہر کردہ ہیں۔
اسحاق ڈار
جے آئی ٹی نے مینڈیٹ سے تجاوز کیا‘ رپورٹ بدنیتی‘ مفروضوں پر مبنی مسترد کی جائے: شریف فیملی اسحاق ڈار نے اعتراضات جمع کروا دئیے
Jul 18, 2017