دہشت گرد قوتوں کا وار

پاکستان کا بنیادی اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہاں مسخ شدہ مذہبی نظریات کے لبادے میں پروان چڑھنے والی اندھی انتہا پسندی ہے جو تاریک ادوار کی یاد دلاتی ہے۔ اس ملک اور اس کے باسیوں کی قسمت کے ساتھ کئی برسوں سے بے بصیرت رہنما کھیلتے رہے ہیں اور اب تقدیر ہمیں اس فیصلہ کن موڑ پر لے آئی ہے کہ اب یہاں قیامِ امن کا خواب اس وقت تک شرمندۂ تعبیر ہوتا دکھائی نہیں دیتا جب تک ہماری سوچ و نظر وسعت پزیر نہیں ہوتی۔ خدا خدا کر کے اب ہم اس قاتل دلدل سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں تا کہ عقل کے تقاضوں کے مطابق جینا سیکھ لیں۔ جنگجو دستے ابھی ختم نہیں ہوئے یہ ضرور ہوا ہے کہ آپریشن کے نتیجے میں بچے کھچے دہشت گرد منتشر ہو کر پناہ گاہوں میں چھپ گئے ہیں۔ ایک وقت تھا جب دہشت گردی کی وارداتوں کی وجہ سے عوام کی بے چینی بلکہ مایوسی میں اضافہ ہو رہا تھا۔ عوام دیکھ رہے تھے کہ انتہا پسند طاقتیں آگے بڑھتے ہوئے جہاں چاہے اپنی مرضی سے وار کر لیتی تھیں جب کہ ریاست بے دست وپا دکھائی دیتی تھی۔ گزشتہ چند برسوں سے ملکی سا لمیت، جمہوری و سیاسی نظام کی بقاء اور ملکی معیشت کو بد امنی، دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ سے جو وجودی خطرات لاحق تھے ان کا بروقت جواب دینے کی توانا اور نتیجہ خیز حکمتِ عملی نیز پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پر قوم نہ صرف نازاں ہے بلکہ معاشرے میں امن و امان کی بہتری، سماجی یکجہتی، انفرادی تحفظ کا جو احساس اجاگر ہوا ہے اس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر قوم کا اعتبار دو چند کر دیا ہے۔ پاک فوج پوری بے جگری سے ان قاتل دہشتگردوں کا تعاقب کر رہی ہے، پاک فوج نے دہشت گردوں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے اس لئے یہ امن کے دشمن اب چھپ کر آسان اہداف پر وار کر رہے ہیں۔ ایسے ہی حملے گزشتہ دنوں خیبر پی کے اور بلوچستان میں انتخابی امیدواروں کے جلسوں ،جلوسوں، کارنر میٹنگز پر کئے گئے۔ جس میں 200 سے زائد افراد کی قیمتی جانوں کے ضیاع پر پوری قوم ایک بار پھر اضطراب میں مبتلا ہو گئی ہے۔ یہ واقعات پاکستان کی سا لمیت کے خلاف سازش اور وطنِ عزیز میں جمہوریت کے عمل میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش ہے۔ بیرونی قوتوں کی تو یہی کوشش ہے کہ پاکستان میں کبھی سیاسی استحکام نہ آئے، وہ انتخابی عمل کو سبو تاژ کرنے کے لئے بم دھماکوں کے ذریعے عملی جامہ پہنا رہے ہیں۔ ان واقعات کے پس منظر میں وہ قوتیں کارفرما ہیں جو ملک میں ابتری پھیلا کر عوام کو خوفزدہ کرنا چاہتی ہیںتاکہ انتخابی عمل میں رکاوٹ پیدا کی جا سکے۔ وہ چاہتے ہیں ملک میں جمہوری عمل رک جائے کیونکہ اس سے ملک کے حالات سدھر سکتے ہیں جب کہ ملک دشمن عناصر یہ نہیں چاہتے ہیں۔دہشت گردوں نے حیوانیت کی حدود پھلانگتے ہوئے انسانیت کو تماشا بنانے کا گھناؤنا کھیل عرصہ دراز سے جاری رکھا ہوا ہے۔ جیسے جیسے شرپسند اپنے گھناؤنے عزائم کو شکل دیتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ان کی حقیقی شکل مزید عیاں ہو کر عوام کے سامنے آتی جا رہی ہے۔ اگر چہ تخریب کار وارداتیں کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں لیکن عوام اور انتخابی امیدواروں کو خوفزدہ کرنے میں ناکام دکھائی دے رہے ہیں۔ عوام میں ان کے خلاف نفرت کی لہر سیلاب بنتی جا رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں جب نا صرف دہشت گرد بلکہ ان کے حامی بھی اس سیلاب میں بہہ جائیں گے۔
اس قسم کی بزدلانہ کاروائیوں کا مقصد عوام میں خوف و ہراس کی فضا پھیلانے کے سوا کچھ نہیں ہے تا کہ وہ انتخابی عمل بالخصوص ووٹنگ والے دن اپنا حقِ رائے دہی استعمال کرنے کی بجائے گھروں میں بیٹھنے کو ترجیح دیں۔ پاکستان میں 2018ء کے انتخابات کو عالمی سطح پر انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ باہر کی قوتوں کے بجائے عوام اپنے نمائندے خود منتخب کریں گے۔ دراصل یہی بات عالمی قوتوں بالخصوص انٹر نیشنل اسٹیبلشمنٹ کو بری طرح کھٹک رہی ہے کیونکہ انہیں اپنی مرضی کی حکومتیں چاہئیں تا کہ وہ اقتدار میں آ کر پاکستان کے بجائے ان کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ تاہم یہ امر خوش آئند ہے کہ اس مرتبہ عدلیہ، فوج اور عوام سب ملک میں صاف و شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے پر ازم ہیں ۔ ظاہر ہے بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ ملک میں انتخابات کا عمل بخیر و خوبی انجام پا جائے اور خیبر پی کے و بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی بجائے ملک سے محبت رکھنے والے لوگ منتخب ہو جائیں۔ریاست کا وجود بنیادی طور پر اس کی رٹ کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ لیکن جب ریاست میں ایسے لشکر قائم ہو جائیں جو ریاست کی رٹ کو چیلنج کر کے طاقت اور مسلح جدو جہد کی بنیاد پر اپنی مرضی اور منشا کے مطابق نظام لاگو کریں گے تو اس سے معاشرے میں بد امنی اور انتشار پیدا ہو گا۔
یہ جو دہشت گرد پاکستان میں موجود ہیں اس کا براہِ راست نشانہ پاکستان کے عوام بن رہے ہیں۔ یہ لوگ پاکستان اور اسلام کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں اور اس کا اعلان اور تکرار بھی کرتے رہتے ہیں یہ بھول جاتے ہیں کہ ایسا کرنے سے وہ اسلام کی کوئی خدمت نہیں کر رہے بلکہ امن اور انسانی اقدار کے علمبردار دین کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ اس ملک میں گزشتہ چند برسوں سے شریعت کے نفاذ اور اسلامی اقدار کی پاسداری کے نام پر قتل و غارت کا جو بازار گرم کر رہے ہیںوہ اقوامِ عالم کی نظر میں پاکستان ہی نہیں عالمِ اسلام کے وجود کو بھی مشکوک بنا رہا ہے۔ اگر چہ فوج براہِ راست اس جنگ سے نمٹنے کی حکمتِ عملی پر پیرا ہے لیکن اس کام میں ہمیں بطور حکومت، سیاسی جماعت، سیاسی اشرافیہ اور دوسرے تمام طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بغیر کسی فکری الجھاؤ کے اس نقطہ پر متفق ہونا ہو گاکہ ہمیں اس انتہا پسندی اور دہشت گردی سے اپنے آپ کو محفوظ بنانا ہے۔ اگر ہم حقیقتاً بطور ریاست پر امن، مہذب اور ذمہ دار ریاست کے طور پر سامنے آنا چاہتے ہیں تو ہمیں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی اس جنگ کو جیتنا ہے۔

ای پیپر دی نیشن