کشمری عوام :مسئلہ کشمیرکابنیادی فریق

Jul 18, 2018

4: عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات کا بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر کافی اثر ہوا۔ہنگری اور کیوبا کی انقلابی تحریکیں،روس کے خلاف افغان مجاہدین کی کامیابی کی وجہ سے مقبوضہ وادی میں الفتح اور پیپلز لیگ جیسی تنظیموںقائم ہوئیں جنہوں نے بھارتی فوج کے خلاف گوریلا جنگ شروع کر دی اس دوران کئی کشمیری رہنماؤ ں نے عسکری گروپ بنائے۔1994تک بڑے عسکری گروپوں کی تعداد گیارہ تک پہنچ چکی تھی جبکہ چھوٹے گروپوں کی تعداد درجنوں میں تھی۔ان میں سے اکثر کو بھارتی حکومت نے کالعدم قرار دے دیا جس کی وجہ سے کئی اپنے نام بدل کر نئے ناموں سے سامنے آ گئے۔1990کی دہائی عالمی سطح پر انقلابی تحریکوں اورآزادی کی تحریکوں کی دہائی تھی۔جن میں قوم پرستی کا رنگ جھلکتا تھا۔اس لئے مقبوضہ کشمیر میں اس وقت آزادی کی تڑپ مزید بھڑک اٹھی جب روس کے ٹوٹنے سے کئی وسطی ایشیائی ریاستوں کو آزادی نصیب ہوئی۔
5: مقبوضہ کشمیر میں مذہبی جماعتوں نے بھی آزادی کی تحریک میں اپنابھر پور حصہ ڈالا۔صدیوں پرانی کشمیری شناخت جب مذہبی بنیادوں پر تقسیم ہوئی تو مسلمان بھی اپنے حقوق کے لئے کھڑے ہو گئے ہندؤوں کی قوم پرست جماعتیںجیسا کہ پراجہ پرشاد،جانا سنگھ اور آر ایس ایس کو کانگریس کی حمایت حاصل تھی یہی وجہ تھی کہ 1952میں کشمیری ہندؤوں نے کشمیر کی خود مختار حیثیت کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔پراجہ پرشاد کے فرقہ وارانہ احتجاج نے شیخ عبداللہ کو مجبور کیا کہ وہ کشمیر کی مکمل خود مختاری کا مطالبہ کریں۔2008میں امر ناتھ لینڈ تنازعہ اور2015میں گائے کے گوشت پر ہونے والے فسادات سے کشمیری نوجوان یہ سمجھنے پر مجبور ہو گئے کہ ہندو حکمران کشمیریوں کو اپنی رعایا بناناچاہتے ہیں۔
6: بھارتی فوج کی جانب سے طاقت کا اندھادھند استعمال اور کشمیری نوجوانوں کے خلاف تشدد سے گزشتہ دہائی میں عسکریت پسندی عوامی سطح پرپھیل گئی۔ہیومن رائٹس واچ کے مطابق آرمڈ فورسز پاور ایکٹ(AFSPA)کی وجہ سے کشمیری فورسز کو آزادی ملی کہ وہ جسے چاہیں جہاں چاہیں مار ڈالیں۔ اسی رد عمل میں مقبوضہ کشمیر میں 1990میں شدت پسندی میں اضافہ ہوا۔بھارتی فوج نے خصوصی اختیارات کے تحت طاقت کا ندھا دھند استعمال کیا جس کا نشانہ بے گناہ عورتیں اور بچے بھی بنے۔
جموں کشمیر پبلک سیفٹی ایکٹ بھی ایک ظالمانہ قانون ہے جس کے تحت ریاستی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی مشتبہ شخص کو عدالت میں پیش کئے بغیر دو سال تک تحویل میں رکھ سکتی ہے۔ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے ان دونوں جابرانہ قوانین کا جابرانہ اور ظالمانہ قرار دیا۔1995اور1996کے دوران ایسے افراد کی تعداد سالانہ اڑھائی ہزار سے تجاوز کر گئی تھی تاہم حالیہ سالوں میں اس میں کمی آئی ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی سالوں سے تعینات بھارتی فورسز تین قسموں کی ہے۔بھارتی فوج،بارڈر سیکورٹی فورس اور سینٹرل ریزرو فورس، آخر الذکر دونوں فورسز وزارت ِ داخلہ کے ماتحت ہیں جبکہ فوج وزارت دفاع کے ماتحت ہے۔تینوں فورسز میں بی ایس ایف کی شہرت کشمیریوں کی ماورائے عدالت ہلاکتوں اور ظالمانہ آپریشنز کی وجہ سے کافی خراب ہے۔بدنام زمانہ ٹارچر سیل Papa IIمیں ظلم و ستم کی ایسی ایسی داستانیں رقم کی گئیں کہ جن کا تصور کرتے ہی روح کانپ اٹھتی ہے۔بھارت نے کشمیریوں کو دبانے کے لئے ظلم کے پہاڑ توڑ ڈالے جس نے کشمیریوں کو مجبور کیا کہ وہ بندوق اٹھا لیں۔ اس صورتحال کو ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ڈائریکٹر گلوبل آپریشنز نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔’’کشمیر میں جتنی فورسز تعینات ہیں ان میں سے کسی کے خلاف آج تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس نہیں چلا۔چنانچہ کسی بھی جواب دہی کی عدم موجودگی میں انہوں نے ایسے ہتھکنڈے بھی استعمال کئے جن کی اجازت کسی صورت نہیں دی جا سکتی تھی ‘‘۔اس حوالے سے مقبوضہ کشمیر میںانسانی ہلاکتوں، گمشدگیوں، زنا بالجبر،تشدد اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کے اعداد و شمار ہولناک ہیں اور سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ان کی تعداد 40ہزار تک ہے۔مقبوضہ کشمیر کی حکومت ان کی سرکاری تعداد 43226بتاتی ہے جو 1990سے2011کے درمیانی عرصے میں ہلاک ہوئے۔ان میں سے 21323حریت پسند،13226 عام شہری جو سیکورٹی فورسز کا نشانہ بن گئے۔ا س میں 5369پولیس والے بھی شامل ہیں جنہیں حریت پسندوں نے ہلاک کیا۔ لیکن آزاد ذرائع کی جانب سے مہیا کئے جانے والے اعداد و شمار اس تعداد سے کہیں زیادہ ہیں۔جن میں ہلاکتوں، تشدداور زنا بالجبر کے دوران یا بعد میں خود کشیاں، جسمانی معذوری،اندرونی بے دخلیاں، سامنے آنے اور نہ آنے والی گمشدگیاں، اور وادی سے ملحقہ علاقوں میں اجتماعی قبریں بھی شامل ہیں اور یہ سب اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ قابض بھارتی فوج کو کالے قوانین کا سہارا دیا گیا ہے اور وہ اپنی رٹ قائم کرنے کی خاطر کوئی بھی حد کراس کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔کشمیر میں مسلح جدوجہد کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے Beheraنے Demystifying Kashmirنے لکھا ہے کہ ’’مرکزی حکومت نے گورنر شری جگ موہن کی پالیسی کے ذریعے لوگوں کو موقع دیا کہ وہ بھارت کے خلاف ہو جائیں اور پر امن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھنے والے کشمیری عسکریت پسندی کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ‘‘۔
کشمیری نوجوانوں میں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کو دیکھتے ہوئے حکمران پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی کے نوجوان رہنما وحید پیرا کہتے ہیں ’’پہلے تو کشمیری نوجوان شناخت کی جستجو میں ہے،دوسرا یہ کہ اشرافیہ کو وہ پسند نہیں کرتے، ہم کو شش کر رہے ہیں کہ انہیں کیسے مرکزی دھارے کا حصہ بنایا جائے ‘‘۔
حکمران جماعت کو یہ باور ہوجانا چاہئے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف بھارت نے جو جابرانہ اقدامات کئے اور کشمیر کی تحریک آزادی کو دہشت گردی کے ساتھ نتھی کیا اس کے جواب میں کشمیری اپنی تحریک آزادی شروع کرنے پر مجبور ہوئے۔
(ترجمہ و تلخیص سجاد اظہر)

مزیدخبریں