معیار ایک ہو… ایمانداری اور خدمت

Jul 18, 2018

نغمہ حبیب

الیکشن 2018 صرف چند دن کے فاصلے پر ہے قوم ایک بار پھر فیصلہ دے گی درست یا غلط اس کا فیصلہ تو بعد میں ہو گا لیکن اس وقت ہر سیاسی لیڈر قوم کی خدمت کے جذبے سے ’’معمور‘‘ ہے ۔عالی شان ا ور خوشنما منشور پیش کیے جا رہے ہیں یوں لگتا ہے کی دو سال میں ہی یہ سارے پاکستان کو عالمی سُپر پاورنہیں تو ایشین ٹائیگر تو بنا ہی دیں گے اللہ تعالیٰ کرے ایسا ہی ہو لیکن پچھلے ستر سال میں قوم ایسا منظر دیکھنے کے لیے ترس گئی ہے ہر بار ایک اُمید لے کر ووٹر نکلتے ہیں اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں لیکن جو سلوک یہ نمائندے اپنے وعدوں اور عوام کے ساتھ کرتے ہیں وہ قوم کو مایوس کرنے کو کافی ہوتا ہے۔یہ سیاسی لیڈر اپنی ذات اور خاندان کے لیے دولت بنانے کی مشین بن جاتے ہیں، دولت، پیسہ، روپیہ، پلاٹ، پرمٹ،بنگلہ، پلازے اور ڈالر ان کا منشور بن جاتے ہیں اور یہ سب کچھ بغیر کسی احتساب کے خوف کے بن جاتا ہے۔ہمارے حکمران اگرچہ بنتے بھی اشرافیہ میں سے ہیں لیکن پھر تو دولت ان کے گھر کی باندی بن جاتی ہے اور مقناطیس کی طرح ان کی طرف کھنچی چلی آتی ہے ہر جائز نا جائز طریقہ استعمال ہوتا ہے ہمارے عام نمائندوں سے اعلیٰ شخصیت تک کئی قسم کی بدعنوانیوں میں ملوث ہیں بلکہ بہت زور وشور سے ہوتے ہیں۔ یہی سب کچھ ہمارے تین بار کے منتخب وزیراعظم نے کیا ہے۔مجھے یاد ہے قرض اتارو ملک سنوارو کی مہم چلائی گئی جس میں ہم جیسے عام لوگوں نے بھی اپنی حیثیت سے بڑھ کر حصہ ڈالا لیکن ہوا کیا پاکستان مزید مقروض ہوگیا حکمران مزید امیر ہو گئے عوام مزید غریب ہو گئے اور قصہ ختم پیسہ ہضم۔دوسری پارٹی کی حکومت آئی اور ایک اوردور شروع ہو گیا ،کمشن،پرسنٹیج ،حصہ ہر طرح سے پیسہ اپنی تجوریوں میں بھراگیا ،حکومت گئی اور پھر پچھلے آگئے لگی ہوئی باریوں میں سب سے زیادہ کام اپنی ذات پر کیا گیا۔ سوئس بینکوں سے تو پاکستانیوں کا تعارف پہلے سے ہی تھا اب کی بار آف شور کمپنیوں سے آگاہی کا شرف بھی حاصل ہو گیا ہمارے حکمران اس طرح کے کئی کارنامے سرانجام دے چکے ہیں۔بیرون ملک پوش علاقوں میں عالی شان فلیٹس اورتجارتی عمارتیںاس کے علاوہ ہوتی ہیں ۔ایسے ہی ایک مقدمے میں نواز شریف کو دس سال اور ان کی بیٹی مریم نواز کو سات سال قید کی سزا نیب کی عدالت کی طرف سے سنائی گئی کہ اس خاندان نے 1990کی دہائی میں لندن کے پوش علاقے پارک لین میں چار لگثری اپارٹمنٹس خریدنے کے لیے پیسہ غیر قانونی طور پر ملک سے باہرمنتقل کیا۔یہ پرانا کیس پانامہ پیپرز کا سلسلہ شروع ہونے پر دوبارہ منظر عام پر آیا اور الزام ثابت ہونے پرقید کی سزا بمعہ دس ملین جرمانے کے سنائی گئی ۔یہ سزا جرم ثابت ہونے پر سنائی گئی لیکن وہی جو خود کو قانون کے رکھوالے سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں آنے دیں گے جب اپنی ذات کی باری آئی تو تمام اصول و ضوابط توڑ دیے گئے ۔غریب مجرم ہو اور سزایافتہ بھی ہو تو ساری عمر اس کے ساتھ یہ بدنامی بطور اُس کی ذات کے عنوان کے جُڑی رہتی ہے جبکہ دولت مند اور خاص کر حکمران کو اول تو سزا ہو نہیں پاتی اور اگر ہو جائے تو اُس کے اوپر انگلیاں اٹھانے والے ہزاروں نکل آتے ہیں۔ہم حضرت عمر ؓخلیفہء وقت کے بیٹے کی سزا کا واقعہ بڑے فخر سے بیان کرتے ہیں لیکن جب ہمارے ایک حکمران کو سزا ہو جائے تو اسے جمہوریت کے ساتھ دشمنی اور مذاق کا نام دینے لگتے ہیں۔ہم دین دین، مذہب مذہب، اسلام اسلام پکارتے رہتے ہیں لیکن بھول جاتے ہیں کہ قبیلہ بنو مخزوم کی فاطمہ کے ہاتھ چوری کے جُرم میں کاٹنے کا حکم صادر ہوتا ہے تو نبی کریمؐ فرماتے ہیں کہ قسم ہے محمدؐ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اُن کو بھی یہی سزا دی جاتی لیکن یہاں معاملہ …؟ہمارے یہاں تو حکمرانوں کی جیل بھی گھر کے ماحول سے مماثل ہوتی ہے اور پھر اسی سزا کا سیاسی فائدہ جس پیمانے پر اُٹھایا جاتا ہے اس کی تو کوئی حد نہیں ہوتی۔ ہر جلسے ہر انٹرویو میں عوام پر احسان کیا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کے لیے جیل کاٹی حالانکہ وہ ان کے اپنے کیے دھرے کی سزا ہوتی ہے اور یہ رویہ کسی ایک لیڈر تک محدود نہیں بلکہ ہر ایک اسی قطار میں کھڑا ہے۔بہر حال اس وقت بات نواز شریف اور اُن کی صاحبزادی کی ہے اور اُن کی جماعت انہیںعظیم رہبر کے طور پرپیش کر رہی ہے۔ وہی نواز شریف جنہوں نے حکومت سے فارغ کیے جانے کے بعد پاکستان کو ہر قسم کی دھمکی دی، شیخ مجیب کو درست قرار دیا، مسلمانوں کے قاتل مودی سے دلی لگائو اور اپنی فوج مسلسل نشانے پر رہیں ،ان کے خیالات الطاف حسین سے ملنے جلنے لگے ان کی پارٹی کو بسا اوقات اُن کے بیانات کی توجیہات بیان کرنا پڑیں۔ یہاں عرض یہ ہے کہ اب ہمیں بحیثیت قوم اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کرنا شروع کر دینا چاہیے اور جب عدالت انہیں سزا دے ہی دے تو انہیں ہیرو بنانے کی کو شش نہ کریںبلکہ انہیں اپنے سامنے بھی جوابدہ بنائیں تاکہ قوم کی ستر سالہ تاریخ بدلے۔اگر کروشیا کی صدر اکانومی کلاس میں سفر کر کے عام تما شائیوں میں بیٹھ کر فٹ بال کا میچ دیکھ سکتی ہے ، کینڈا کا وزیر اعظم اپنے بچوں کے ساتھ عوامی ریسٹورنٹوں میں کھانا کھا سکتے ہیں تو ہمارے حکمران کیوں نہیں کیا ان کا ملک اُن سے زیادہ امیر اور خوشحال ہے۔چلیے سکیورٹی ضروری ہے لیکن پچاسیوں گاڑیوں کے قافلوں کی کیا ضرورت۔اگر باہر نہیں نکل سکتے تو کم از کم گھر کا شاہا نہ پن ہی کم ہو، لاکھوں کی گھڑی پہننے اور پرس اُٹھانے سے کیا بہتر نہیںکہ یہی پیسہ عوام کی فلاح میں لگا دیں ان دو ہی چیزوں سے سے آٹھ دس گھرانوں کی زندگی بہتر ہو سکتی ہے۔ حرف آخر یہ ہے کہ نواز ہو، زرداری ہو ،بلاول ہو، عمران ہو،فضل الرحمان ہو، سراج الحق ہو یا کوئی اور معیار صرف ایک ہو ایمانداری اور خدمت۔

مزیدخبریں