مشکل فیصلے

Jul 18, 2019

جاوید قریشی

آئی ایم ایف کی سوچ کے زیر اثر تیار کردہ حالیہ بجٹ نے بجلی گیس پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور ڈالر کو آسمان تک پہنچا دیا ہے۔ اس وجہ سے ملکی صنعت و تجارت بندش کا شکار اور عام آدمی کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔ دراصل بجٹ سازوں نے موجودہ بجٹ ملک میں صنعت اور کاروبار چلانے اور عام آدمی کو ریلیف دینے کے نقطہ نظر سے نہیں بنایا۔ ان کا بڑا مقصد یہ تھا کہ قرض کی رقوم طے کردہ شیڈول کے مطابق آئی ایم ایف کو واپس ہو سکیں۔ پہلے بھی حکومتیں عالمی مالیاتی ادارے سے قرض لیتی رہی ہیں لیکن کبھی اس قدر مہنگائی ہوئی اور نہ ہی صنعت یا کاروبار بند ہونے تک نوبت پہنچی۔ حالات کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی صنعت ٹیکسٹائل کا ٹیکسوں کے بوجھ تلے دب کر سانس لینا مشکل ہو چکا ہے۔ صنعتکاروں کی چیخ و پکار پر ارباب اختیار نے کان تک نہیں دھرے یا محبّ وطن صنعتکاروں کی درد بھری آواز ارباب حل وعقد تک پہنچ نہیں سکی۔ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ درآمدی معیشت دانوں کی صحت پر زیادہ اثر نہیں پڑے گا۔ البتہ ملکی برآمدات سکٹر جائیں گی ڑرمبادلہ کی ذخائر کے بے رونقی بڑھنے کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا۔ ان حالات میں بیرونی تاجر ایک بار دوسری منڈیوں کا رخ کر لیں کر لیں گے انہیں واپس پاکستان کی طرف لانا کافی مشکل ہو جائے گا۔ پاکستان کی دوسری بڑی صنعت سیمنٹ سازی کی صنعت ہے۔ حالیہ بجٹ میں بیرونی ماہرین کی استحصالی سوچ تلے دب کر کراہ رہی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ سیمنٹ کی ایک بوری پانچ سو روپے سے بڑھ کر سات سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ موجودہ حکومت نے ہزاروں گھر تعمیر کر کے غریبوں کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ سیمنٹ اینٹ اور سریا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کی موجودگی میں عام آدمی کے لیے گھر تعمیر کرنا ممکن نہیں رہا۔ تعمیراتی سرگرمیاں بند ہونے سے تمام متعقلہ صنعتوں پر شدید منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس سلسلے میں بڑامسئلہ بے روزگاری کا ہے۔ بجٹ سازی میں روا رکھے گئے طرز فکر و عمل کی وجہ سے تعمیراتی شعبہ ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار ہو چکا ہے۔ رہائش کے بعد کھانے پینے کی اشیاء کی دستیابی کا مرحلہ آتا ہے۔ مختلف ٹی وی چینل ہر روز حکومت کے قائم کردہ سستے بازاروں میں پہنچ کر دوکانداروں اور گاہکوں کے تاثرات معلوم کرتے ہیں۔ ان کا خلاصیہ یہ بنتا ہے کہ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ ان بازاروں میں پہنچنے والے اکثر و بیشتر گاہک پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ سن کر واپس چلے جاتے ہیں۔ اس قسم کی صورت حال میں سرکاری خزانے کے مہمان وزیروں مشیروںکے تلقین بھرے اعلانات مہنگائی زدہ عوام کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کرتے ہیں جب وہ فرماتے ہیں کہ معیشت کی سمت درست کرنے کے لیے مشکل فیصلے کرنے پڑ رہے ہیں۔ ہر آدمی سوچتا ہے کہ اگر معیشت کی عمارت درست کی جا رہی ہے تو ایک سال میں کچھ حد تک اس کی درستگی دکھائی دینی چاہئے۔ بدقسمتی سے اصطلاح کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بگاڑ ہر دن کے ساتھ بڑھ رہا اور عوام کی پریشانیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگر وزیر مشیر عوام کو صبر کی تلقین سے پہلے اپنا کھانا پینا چلنا پھرنا اور رہائش کے مسائل اپنی جیب سے وابستہ کر لیں تو انہیں مشکل فیصلے برداشت کی قدروقیمت کا اداراک ہو سکے گا۔ اس وقت مشکل فیصلوں سے غم وغصہ اور قہر آلود نگاہوں کا مرکز جناب عمران خاں بن رہے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ ہر قیمت پر صنعت کو چلانے اور کاروباری سرگرمیاں بڑھانے کی فکر کریں۔ آئی ایم ایف اور خارجہ سوچ فکر سے آزاد ہو کر مشاورت کا دائرہ وسیع کریں۔ عوام کے ووٹوں سے منتخب دوستوں کو قریب کریں۔ آئی ایم ایف کے پسندیدہ ماہرین کی پوری ہسٹری ہر کسی کو معلوم ہے۔ انہوں نے کسی ملک کی معیشت کو درست نہیں کیا۔ جتنی جلدی ہو سکے ملکی ماہرین استفادہ کی راہ استوار کریں اور پاکستانی سوچ کو اپنائیں۔ صنعت اور تجارت پر ٹیکسوں کا بوجھ ہلکا کریں تا کہ رواں دواں رہ سکیں۔

مزیدخبریں