سفرنامہ کی تاریخ بڑی پرانی ہے۔ تب، ایسا نہیں ہوتا تھا کہ صبح لندن، شام، امریکہ اور صبح ماسکو، پس جو گھر سے نکل گیا اگر زندگی نے ساتھ دیا تو اتنے برس بعد لوٹا کہ شہر یا مولد میں پہچاننے والا بھی کوئی نہ ہوتاتھا۔ سب دارِفانی سے رحلت کر چکے ہوتے یا رخشِ عمر نے حلیے بدل کر کچھ کے کچھ کر دئیے ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ابن بطوطہ ، مراکش کے شہر طنجہ (جسے تاریخ و جغرافیہ سے ناواقف لوگ فرنچ کی تقلید میں تنجیر لکھتے ہیں) سے نکلے تو مِسیں بھیگ رہی تھیں لیکن جب 75 ہزار میل کی سیاحت کے بعد، واپس طننجہ پہنچے تو اُن کے اہل قریہ تو دور کی بات اہل خانہ بھی نہ پہچان پائے۔ ابن بطوطہ نے جن کا اصلی نام عبداللہ تھا۔ واپسی پر بڑا دلچسپ سیاحت نامہ بھی لکھا۔ ابتدائی صدیوں میں ایک اور مسلمان ماسکو سے بھی آگے نکل کر اُس سرزمین تک جا پہنچے جہاں ایک طرف سورج طلوع ہو رہا تھا تو دوسری طرف غروب کا منظر تھا! اُنہوں نے بھی واپسی پر عربی میں سیاحت نامہ روس لکھا۔ جس کا اُردو ترجمہ اب نایاب ہے۔ لوگوں نے اُن کی باتوں کا مذاق اُڑایا لیکن آج اس کی حیثیت اُس دور کے مستند حالات کی دستاویز سے کم نہیں۔
مسلمانوں میں سیاحت کو فروغ دینے میں الف لیلہ و لیلہ کی بعض داستانوں اور کوہِ قاف کی پریوں اور جنوں کی تلاش نے بھی اہم کردار ادا کیا کوہ قفقاز جسے کوہ قاف بھی کہتے ہیں‘ کے علاقے کے مرد اور د وسرے علاقوں کے تاتاری قوی ہیکل ہونے میں جنوں سے کم نہیں تھے۔ بابر جو تاتاریوں کی نسل مغل شاخ سے تعلق رکھتا تھا۔ اتنا قوی الجثہ تھا کہ دو جوانوں کو بغل میں دبا کر دہلی کے قلعہ کی فصیل پر دوڑا کرتا تھا۔ رہ گئی پریوں کی بات تو اللہ تعالیٰ نے شمالی ایران ، چیچنیا اور کوہ قاف کے علاقوں کی خواتین کو اس قدر وافر حُسن عطا فرمایا ہے کہ اُن کے سامنے پریاں ہیچ ہیں۔
اُردو میں سفرنامہ کی روایت بڑی پرانی ہے، اٹھارویں صدی کے لگ بھگ ، دیار فرنگ کے دو سفرناموں کا احوال بھی ملتا ہے۔ اُنیسویں صدی کے آخر میں مولانا شبلی نے خلیفتہ المسلمین کی دعوت پر آستانہ عالیہ (استنبول) کا دورہ کیا، جہاں اُنہیں اُن کی علمی خدمات پر اعزازات سے نوازا گیا۔ واپسی پر اُنہوں نے سفرنامہ روم و شام لکھا، اُس زمانے میں روم سے مراد ترکی اور شام سے مراد، لبنان، شام اور فلسطین تھا۔ اس سفرنامے کو ندوۃ المصنفین اعظم گڑھ نے شائع کیا جو اپنے زمانے میں بڑا مقبول ہوا۔
بہاول پور سے ایک بلند پایہ ادبی مجلہ الزبیر شائع ہوتا ہے۔ عنوانات اور موضوعات کے تنوع کے اعتبار سے محمد طفیل (مرحوم) کے نقوش اور حنیف رامے کے سویرا کا نقش ثانی ہے۔ اس نے ادب کی مختلف اصناف پر بلند پایہ خصوصی شمارے شائع کئے ہیں۔ تقریباً 32,30 برس پہلے اس نے سفرنامہ نمبر شائع کیا تھا۔ جس میں کوئی اہم سفرنامہ مذکور ہونے سے نہیں چھوٹا۔ ممتاز ادیب اور مصنف سید سرفراز احمد (مشرق والے) نے ازراہ تلطف اس کا ایک نسخہ عنایت فرمایا۔ دو عشرے وحدت کالونی میں قیام رہا۔ وحدت کالونی دیمک کا گھر ہے۔ ایک دن دیکھا تو الزبیرکا سفر نامہ نمبر مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ زندگی میں صرف کتاب سے عشق کیا۔ خاصی تعداد میں نایاب کتابیں چوری ہو گئیں یا مطالعہ کے شوقینوں نے ہضم کر لیں۔ کسی کا اتنا افسوس نہیں ہوا جتنا الزبیر کے سفرنامہ نمبر کے ضائع ہونے کا ہوا۔ بہت ڈ ھونڈا لیکن پھر ملا نہیں یا یوں کہئے کہ پھر سید سرفراز ایسا مخلص انسان نہیں ملا۔ بہرکیف اس سفرنامے کے مرتبین نے محنت کی انتہا کر دی تھی۔
یہ ساری باتیں یوں ذہن میں آتی چلی گئیں کہ پندرہ بیس روز پہلے محب گرامی سعید آسی نے دو عشرے قبل لکھا گیا، سفرنامہ (مالدیب برونائی اور انڈونیشیا) مرحمت فرمایا۔ ’’سعید آسی کا میدان ادب و صحافت کے شہسواروں میں شمار ہوتا ہے۔ اُنہوں نے 70 کی دہائی میں قلمی سفر کا آغاز کیا اور آج 2019ء میں بھی ان کا قلم علم و ادب کی روشنی بکھیر رہا ہے۔ زد اللٰھم فزد۔! بنیادی طور پر قانون دان ہیں۔ 1981ء سے نوائے وقت سے وابستہ ہیں۔ سب ایڈیٹر سے ڈپٹی ایڈیٹری اور رپورٹر سے چیف رپورٹر تک ہوتے ہوئے گزشتہ بارہ سال سے اداریہ نویس ہیں۔‘‘ نوائے وقت کا اداریہ لکھنا چیزے دیگراست ہے۔ حکمرانوں سے لے کر عام قاری تک صبح اُٹھ کر یہ ضرور جاننا چاہتا ہے کہ نوائے وقت نے کیا لکھا ہے۔ سا دہ منش طبعاً درویش، انتہائی رقیق القلب۔ تعجب ہے کہ اقبال و قائداعظم کا یہ مرید اس شعبے میں کہاں آ گیا جہاں لوگ سائیکل پر آئے، برسوں میں ایسی گاڑیوں میں آنے لگے، جو صرف اور صرف سرمایہ داروں اور صنعتکاروں کو ہی سزا وار ہیں۔ یہ مردِ درویش آندھی ہو یا طوفاں بارش ہو یا دھوپ دفتر پہنچنے کے لیے رکشہ و ٹیکسی کا محتاج ہے۔ سفر نامے کے انتساب ’’اپنے ہاتھوں کی لکیروں کے نام جو مقدر کے سفر کی رازدان ہیں‘‘ نے کتنی دیر تک گم صم رکھا لیکن جب اس کیفیت سے باہر نکلا تو بے اختیار زبان سے نکلا آسی صاحب! درویشوں کا یہی تو سرمایہ افتخار ہے کہ دھول کے اس سفر میں اپنے دامن کو غبار سے آلودہ نہیں ہونے دیتے۔ خوش قسمت ہیں کہ ایک ایسے میدان سے سلامت بچ نکلے ہیں جس کے چاروں طرف صیاد صف آرا ہیں۔
مالدیب جسے منشی نول کشور کے مطبع سے شائع ہونے والی الف لیلہ و لیلہ اور فورٹ ولیم کی داستانوں میں ’’پ‘‘ سے لکھا ملتا ہے۔ مالدیپ ، سرامذیپ اور لکادیپ کو الف لیلہ و لیلہ کی کہانیوں نے دیو مالائی بنا دیا ہے۔ جزائر انڈمان جنہیں کالا پانی بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی دور میں وطن کی آزادی کے پروانوں کو ’’حبس دوام بہ عبوردریائے شور‘عرف عام کالا پانی کی سزا ہوتی تھی۔ بہت کم لوگ بچ کر واپس آ پاتے تھے۔ ان میں ایک ممتاز اہل حدیث عالم دین مولانا جعفر احمد تھانیسری بھی ہیں۔ ان کی سرگزشت بھی پڑھنے کے لائق ہے۔
دو سو صفحے کی اس کتاب میں تین اسلامی ملکوں کے بارے میں ہر وہ چیز بتا دی گئی ہے جس کا علم ضروری ہے۔ مالدیب کا سفر، وزیر اعظم نواز شریف اور برونائی اور انڈونیشیا کے سفر مرحومہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی معیت میں ہوئے۔ الف لیلہ و لیلہ کی داستانوں میں تو بحر ہند کے ممالک و جزائر جن کے نام کے ساتھ دیپ لگا ہوا کرتا تھا۔ کے ذکر میں بڑے خوفناک قصے بیان ہوتے تھے مثلاً ایک پرندے (فرضی) سی مرغ کے بارے میں داستان طرازی کی گئی ہے کہ وہ زندہ آدمی کو اُٹھا لیتا تھا۔ اسی طرح غیر معمولی تن و نوش کے اژدہا ہوتے تھے، جو انسان تو کیا سالم ہرن نگل جاتے تھے۔ لیکن اب سفرنامہ ’’کس کی لگن میں پھرتے ہو‘‘ پڑھ کر معلوم ہوا کہ اب نہ وہ سیمرغوں اور اژدہائوں کا ملک سرامذیپ، سریالکادیپ رہا ہے اور نہ وہ کالا پانی، کالا پانی رہا ہے۔ اگرچہ سمندر کے پانی کا رنگ ابھی کالا ہی ہے اور جب تک بحرہند پر بھارت کا عمل دخل رہے گا۔ اُس کی نحوست و کالک کے زیر اثر سمندر کے پانی کا رنگ بھی کالا رہے گا۔ برونائی کی کہانی اس لیے دلچسپ ہے کہ وہاں تیل کی دولت کی ریل پیل ہے جو چند برسوں بعد ختم ہونے والا ہے۔ مگر اللے تللے شائد ہی کہیں ایسے دیکھنے میں آئیں ۔ سلطان نے اتنا بڑا محل بنوایا ہے کہ بکنگھم پیلس بھی اُس کی ہمسری کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔ ایک زمانے میں جب سلطنتِ برطانیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ برٹش ایمپائر کی سب سے پرشکوہ عمارت بکھنگم محل تھا‘ اور اس کے بعد دلی کا وائسریگل لاج (وائسرائے کی رہائش گاہ) عظمت و شان و شوکت میں محل سے کم نہیں تھا۔ آج مشرق کی یہ سب سے عظیم الشان عمارت راشٹریہ پتی بھون کہلاتی ہے جہاں بھارت کے صدر (راشٹرپتی) کی رہائش و دفاتر ہیں۔ بھارتی بھی کتنے گھامٹر ہیں کہ انہیں ابھی تک اسے یونیورسٹی بنانے کی نہیں سوجھی۔ آمدم برسر مطلب‘ سفرنامہ کی تیسری منزل انڈونیشیا تھا۔ یہاں جو لبرل ہے‘ وہ بھی انوکھی طرز کا لبرل ہے۔ سیاح کی آخری منزل خوابوں کا جزیرہ بالی تھا۔ اس حوالے سے مسافر کی ’لزمی‘‘ سے ملاقات نہ ہونے کا ملال ہر صاحب دل قاری کو رہے گا۔ سفر نامہ کی بے پناہ معلومات اور عکاسی کے علاوہ خوبصورت تحریر اور نگینوں کی طرح جڑے ہوئے شعروں نے بھی تحریر کی تاثیر میں اضافہ کیا۔ برونائی کے حوالے سے ہی حاجی دایان کے کردار کے علاوہ اس بات نے بھی بڑا متاثر کیا کہ ’’مسافر‘‘ سلطان والا جاہ کا پورا نام (صفحہ 110) لکھ لینے میںکیسے کامیاب ہوئے۔ قلم فائونڈیشن انٹرنیشنل‘ یثرب کالونی‘ بنک سٹاپ‘ والٹن روڈ لاہور کینٹ کے عبدالستار عاصم اور محمد فاروق چوہان نے اسے بڑے خوبصورت گیٹ اپ کے ساتھ شائع کیا ہے۔ دونوں حضرات نے جو راقم کیلئے مثل عزیزوں کے ہیں‘ خوبصورت کتابیں چھاپنے کی انوکھی طرز نکالی ہے۔ عزیزم سلیم اختر نے خیال افروز ٹائٹل تخلیق کیا ہے۔ بیک ٹائٹل محترم حامد محمود چشتی کے موئے قلم کا اعجاز ہے۔