19 جولائی1947 ء کو سری نگر میں کشمیریوں کی نمائندہ تنظیم مسلم کانفرنس کا تاریخی اجلاس چودھری حامد اللہ خان کی صدارت میں سردار محمد ابراہیم خان کے گھر میں ہوا۔ پاکستان سے الحاق کی قرارداد خواجہ غلام الدین وانی اور عبدالرحمان وانی نے پیش کی، اجلاس کے تمام شرکاء نے متفقہ طور پر قرارداد منظور کرلی، اسی قرارداد کی بنیاد پر برطانوی حکمرانوں نے برصغیر کی تقسیم فارمولے کے تحت یہ آزادی دی تھی کہ کشمیری جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کرلیں، لیکن اکتوبر 1947 ء میں بھارت نے کشمیر پر قبضہ کرلیا اور کشمیر میں مسلمانوں کی تعداد کم کرنے کے لئے ان پر بے شمار مظالم ڈھائے، لیکن کشمیری آج بھی الحاق کی خواہش سے دستبردار نہیں ہوئے اور کشمیری عوام نے پاکستان سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اب تک بھارت مخالف مظاہروں میں پاکستانی پرچم لہرائے اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے۔برصغیر میں انگریزوں کے دور حکومت میں ریاست جموں و کشمیر کا بھی ا?ن پانچ سو ریاستوں میں شمار ہوتا تھا جہاں کسی حد تک انگریزوں کے تابع نیم بادشاہت قائم تھی اورکسی حد تک ریاست اندرونی معاملات میں فیصلے کرنے کے لئے خود مختار تھی۔ جون میں 1947 ء کے آزادی ایکٹ کے تحت ان ریاستوں پر انگریزوں کی عملی حکمرانی کا خاتمہ ہوگیا توآئینی طورپر تو یہ ریاستیں انگریزوں کی عملداری سے آزاد ہوگئیں، مگر 25 جولائی 1947ء کوگورنر جنرل ماؤنٹ بیٹن نے ان ریاستوں کے سربراہان کو نصیحت کی کہ پاکستان اور ہندوستان میں سے کسی ایک ڈومینن (ریاست) کے ساتھ الحاق اختیار کریں۔
یہ برطانوی سامراج تھا جس نے 1846ء میں کشمیر کو اس کے زندہ باشندوں سمیت 75لاکھ نانک شاہی (جو اس وقت کی کرنسی تھی) کے بدلے ڈوگروں کے ہاتھ فروخت کر دیا تھا۔ ریاست کی تاریخ میں برطانوی سامراج کا شرمناک کردار 1947ء میں اس وقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آ جاتا ہے جب اسلامیان کشمیر کی آزادی کی وہ طویل جدوجہد کامیابی کے آخری مراحل میں داخل ہوتی ہے جس کا آغاز 1932ء میں مسلم قومیت کے تصور مسلم کانفرنس کے پرچم تلے اسلام کے نام پر ہوا تھا۔ چونکہ اس تحریک کا جذبہ محرکہ اسلام اور صرف اسلام تھا۔ اس لئے اس کی منزل واضح طور پر برصغیر اسلام کے نام پر معرض وجود میں آنے والی مملکت خداداد پاکستان تھی۔ 2 قومی نظریے کی بنیاد پر بننے والے ملک پاکستان کے قیام سے پہلے کشمیر کے مسلمانوں نے مسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے جسے اس وقت کی ملی پارلیمان کی حیثیت حاصل تھی۔ 19 جولائی 1947ء کو کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کی قرار داد منظور کر کے اس تحریک کی منزل کا رسمی طور پر اعلان کر دیا تھا۔ مگر عین اس مرحلے پر جب یہ تحریک منزل سے ہمکنار ہونے کو تھی ۔ سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے خوفناک جال پھیلا کر اس تحریک کو اپنی منزل سے بیگانہ کر دیا گیا۔ سازش اور ریشہ دوانیوں کرنے والوں میں ایک طرف برصغیر کی ہندوکانگریس کی قیادت شامل تھی جو پورے کشمیر کو اکھنڈ بھارت بنا کر دیو مالائی تصورات کے مطابق ایک عظیم برہمنی ریاست کے خواب کی تکمیل کرنا چاہتی تھی۔ دوسری طرف ہندو مہاراجہ ہری سنگھ جس کو فریب دیا گیا تھا کہ برہمنی ریاست میں اس کا راج سنگھاسن کو ہر طرح کا تحفظ حاصل ہو گا۔ تیسری طرف ریاست میں کشمیر نیشنلزم کے فتنے کے بانی شیخ عبداللہ اور ان کے ساتھی تھے۔ جس کی اس مقصد کے لئے برین واشنگ کی جا رہی تھی۔ چوتھی طرف برطانوی سامراج تھا جو اسلام کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی مملکت پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو اس کے ازلی دشمن بھارت کے قبضے میں دے کر احیاء اسلام کی اس عالمی تحریک کو ناکام بنانا چاہتا تھا۔
یہ امر واقع ہے کہ اگر 7 اگست کو برطانوی سامراج کے نمائندے ریڈ کلف نے اپنے نام نہاد ایوارڈ کے ذریعے مسلم اکثریت کا ضلع گرداس پور کو ناجائز اور غیر قانونی طور پر بھارت کے حوالے کر کے اسے کشمیر تک پہنچنے کا راستہ نہ مہیا کیا ہوتا تو ریاست جموں و کشمیر پر بھارتی تسلط کی سازش کبھی بھی کسی صورت کامیاب نہ ہوتی۔
پھر 1948ء میں یہ مسئلہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد کے مطالبے کو ایک طویل مدت تک بار بار ویٹو کے استعمال کے ذریعے مسترد کیا جاتا رہا اب بھی سامراجی طاقتیں ہی ہیں جو محض اس لئے کشمیر میں استصواب رائے سے متعلق اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد نہیں ہونے دینا چاہتی اس سے ان کا چہیتا بھارت نوخیز برہمنی سامراج ناراض نہ ہو جائے۔ عالمی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی بے حسی کے باوجود مقبوضہ کشمیر کے عوام 70 سال سے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بالخصوص 1988ء میں تحریک آزادی کشمیر کو مجاہدین کشمیر نے اپنی جانوں کے نذرانے دے کر جلا بخشی۔
جولائی 2016ء میں حزب المجاہدین کے جواں ساتھی برہان مظفر وانی نے اپنا گرم لہو دیکر ایک نئی سمت دی ہے۔ ان کی چوتھی برسی کے موقع پر مقبوضہ کشمیر ، آزاد کشمیر ، مہاجرین مقیم پاکستان میں بھی ایک جوش و جذبے اور تجدید عہد سے منائی گئی۔ کشمیری 1947ء سے 2019ء تک پاکستان کے ہر قومی دن اور خوشی کو جوش و جذبے سے مناتے ہیں اور پاکستان کی بقاء اور تکمیل کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہمیں بھی اپنے رویوں اور عمل سے ثابت کرنا ہو گا۔ جنرل مشرف کے دور حکومت میں بھی نرم پالیسیاں اختیار کر کے کنٹرول لائن پر باڑ لگوا دی گئی اور اپنے یکطرفہ طور پر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے کئی آپشن دے کر نقصان پہنچایا گیا۔ میاں محمد نوازشریف دور حکومت میں نریندر مودی اور بھارت سے ذاتی دوستی ، تعلقات، کاروبار کو فروغ دینے اور اپنی حکومت کو دوام بخشنے کے لئے دوستی کو فروغ دیا گیا۔ اور اپنی ذاتی تقریبات میں بغیر پروگرام کے مودی کا شرکت کرنا سب باتوں سے مسئلہ کشمیر کو نقصان پہنچا ۔ کشمیری رہنماء سید علی گیلانی سمیت سب نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ جس سے پاکستان کی سلامتی کے اداروں اور مفاد پرست اشرافیہ کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی۔ مریم نوازشریف اور مسلم لیگ کے جذباتی رہنمائوں نے جلتی پر کام کیا۔ لہٰذا اب بھی مسلم لیگی قیادت کو سوچنا اور اپنے رویے ، عمل اور کردار سے ثابت کرنا ہو گا۔ موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی وکٹری تقریر سے آج تک پارلیمنٹ ، بیرون ملک اور اپنی قوم یا کسی پلیٹ فارم پر مسئلہ کشمیر اور کشمیری عوام کی بھر پور ترجمانی کی ہے۔ اور ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے اور بھارتی ظلم و تشدد کی شدید مذمت کی ہے۔ انہوں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو مثبت پیغام دیئے کہ امن کے لئے کشمیر اور باقی تمام متنازعہ امور پر مذاکرات کے لئے پاکستان تیار ہے۔ جس سے جنوبی ایشیاء میں امن قائم رہ سکے۔ منفی رویہ امن کے لئے سوالیہ نشان ہے اب جبکہ عمران خان امریکہ کے دورے پر جا رہے ہیں ۔
کشمیری عوام توقع رکھتے ہیں کہ وہ اپنی ملاقاتوں اور دیگر پلیٹ فارم سے مسئلہ کشمیر ، کشمیریوں کے حق کے لئے ضرور آواز اٹھائیں گے۔ اس سلسلے میں آزاد کشمیر کے سابق وزیر اعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بھی ایک ہفتے کے دورے پر امریکہ گئے ہیں ۔ وہ عمران خان کے پاکستان اور کشمیری کمیونٹی سے خطاب کے سلسلے میں امریکہ کی مختلف ریاستوں ، کشمیری عوام سے رابطہ کر کے اس اجتماع میں شرکت کے لئے دعوت دیں گے۔ اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اعلیٰ حکام اور امریکی وزارت خارجہ اور اراکین پارلیمنٹ سے ملاقات کریں گے۔