یہ جو چہار اطراف ایک سکون کا سا عالم ہے اور ساری دنیا میں طرح طرح کے مفروضے گردش کررہے ہیں یہ طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے اور وہ تو کورونا صاحب کا بھلا ہو کہ ذرا زبردستی کاہی سہی لیکن ایک سکون آمیز سی کیفیت دنیا پر طاری کردی ہے ورنہ قبل از کورونا کی دنیا جوکہ ابھی چند ماہ پرانی ہی بات ہے کسی سے مخفی نہیں کہ کیسا شور چار دانگ عالم مچا ہوا تھا اور وقت کی رفتار جیسے بہت تیز ہو گئی تھی اور پے در پے واقعات جیسے موسلا دھار بارش کی مانند اطرافِ عالم میں برس رہے تھے، ان سب معاملات کو ذرا سی روک ضرور لگی ہے لیکن بازی گروں کے بڑے کھلاڑیوں کے ارادے وہی ہیں اور وہ صبر و سکون سے اس ناگہانی عالمگیر وبا و بلا کے گزرنے کا انتظار کررہے ہیں تاکہ کھیل کا اگلا مرحلہ شروع کیا جا سکے مگر یہ کھیل ہے کیا؟ کھیل وہی بالا دستی اور زیر دستی کا ہے،ہمچو ما دیگرے نیست کا ہے،حب جاہ کا ہے وسائل پر قبضوں کا اور اپنے طور طریقوں اور اپنی اپنی تہذیب کو بلند و برتر ثابت کرنے کا ہے یعنی تہذیبوں اور نظریوں کی جنگ۔اب ذرا غور فرمائیے کہ فی زمانہ دنیا میں صرف دو نظریات اور دو تہذیبیںایسی ہیں جن کے مابین ایک آویزش ہر سطح پر جاری ہے ایک ہے مغربی تہذیب اور دوسری اسلامی تہذیب۔ دیکھا جائے تو دنیا میں مروجہ دیگر تمام نظام اور تہذیبیں مغربی تہذیب کے سامنے ہتھیار ڈال چکی ہیں اور اس کی چکاچوند سے،ترقی سے، ٹیکنالوجی کی بلندیء پرواز سے اور اس کے چمکیلے اندھیروں سے مرعوب
ہوچکی ہیں سوائے اسلامی تہذیب و تمدن کے جو اس کے مقابل بالکل اس سے متضاد اور ایک سو اسی کے زاویئے پر ایک چٹان کی طرح جمی ہوئی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد مسلمانوں کے سیاسی مرکز یعنی خلافت کے خاتمے کے بعد اسلامی دنیا اور اسلامی تہذیب بحیثیت مجموعی وقتی اضمحلال اور زوال کی کیفیت میں چلی گئی اور نظریاتی اعتبار سے دنیا میں دو نظریات کا ٹکراؤ شروع ہوا ایک سرمایہ دارانہ نظریہ اور دوسرا کیمونزم اول الذکر مغربی تہذیب کی نمائندگی کررہا تھا تو دوسرا پابند معاشی نظام کی لیکن خدا اور اسلام دشمنی کے اعتبار سے دونوں ایک ہی راہ کے راہی تھے لیکن پھر ہوا یوں کہ سنہ1990 آتے آتے مارکس اور لینن کے نظریئے کی ترجمان سب سے بڑی ریاست سوویت یونین اپنے داخلی تضادات وفلسفے اور عمل کے تضاد کے باعث بکھرگئی جس میں یقینا مغربی تہذیب کی کاوشیں بھی شامل تھیں اور مارکسی فلسفہ مشرقی یورپ اور روس سے اپنے نظام کے ساتھ ہی تقریبا ختم ہوگیا۔اب یورپ اور امریکہ کو اپنی برتری کا ہوا برقرار رکھنے کے لئے ایک مشترکہ دشمن کی ضرورت تھی اور کیونکہ مغربی دنیا کی روایتی دشمنی اسلام اور اسلامی دنیا سے رہی ہے، اس لئے انہوں نے اپنارخ مسلمانوں اورسلامی دنیا کی طرف کیا۔ اس کیلئے مغربی مفکروں نے عوام کے ذہن کو تیار کرنے کیلئے ایک نیا فلسفہ تہذیبوں کاتصادم کے نام سے پوری دنیا میں پھیلایا۔ اس کے مفکر امریکہ کے یہودی دانشور اور امریکی فکر کے روح رواں سمیول ہٹنگٹن تھے۔انہوں نے اپنی کتاب ’’تہذیبوں کے تصادم‘‘ میں اس نظریہ کو پیش کیا کہ آئندہ دنیا میں مغربی تہذیب کا تصادم اسلا می دنیا اور اسلامی
تہذیب سے ہونے والا ہے اور اسلامی تہذیب پورے عالم انسانیت کے لئے خطرہ ہے، کیونکہ یہ تہذیب جہاد کے ذریعے پوری دنیا کو اپنا شکار بنائے گی اسی لئے مغربی مفکروں نے اسلامی دہشت گردی اور بنیاد پرستی کے الفاظ اوراصطلاحات ایجاد کیں اور پوری دنیا کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ اسلام بھی کمیونسٹ نظام کی طرح انسانیت کے لئے خطرناک نظریہ ہے اس لئے اس کو ختم کرنا ضروری ہے۔تہذیبوں کے تصادم میں ایک طرف امریکہ کی رہنمائی میں تقریبا پورایورپ ایک ساتھ ہوگا اور دوسری طرف اسلامی دنیا اور اس کے کٹرمذہبی ڈکٹیٹر۔ہٹنگٹن نے اس تصادم میں منگول نسل اور ان کے ملک چین جاپان اور کوریا وغیرہ کو جانبدار بتایالیکن ہٹنگٹن کا یہ نظریہ دو دہائی سے بھی کم وقت میں غلط ثابت ہونا شروع ہوگیا ہے۔ گوکہ اس کی بنیادی بات درست تھی یعنی دو نظریات کا ٹکراؤ ہونا لیکن دیگر تخمینے غلط ہوگئے اوراسکا ثبوت امریکہ اور یورپ میں پھوٹ پڑنے والی معاشی بدحالی اور مندی ہے، جس کے باعث 1971کے بعد امریکہ کی معاشی ریٹنگ تھری پلس سے گرکر ٹوپلس ہوگئی ہے اور امریکہ کے بعد فرانس بھی مالی اور معاشی بحران کا شکار ہورہاہے اور اس کی ریٹنگ بھی گرنے والی ہے۔اسی طرح امریکہ کے اتحادی اسپین اورپرتگال دیوالیہ ہونے کے دہانے پرہیں اور کورونا کی عالمی وبا نے جیسے سرمایہ دارانہ مغربی تہذیب کے نمائندہ ملکوں کے لئے اس معاشی صورتحال کو اور گھمبیر بنا دیا ہے گوکہ سودی معیشت کے عالمی جادوگر ماہرین اعداد و شمار کا کھیل اور شعبدہ بازیاں دکھا کر اس بحران کو کم دکھانے کی کوشش کررہے ہیں اور بظاہر سکون میں نظر آنے کی بھرپور کوششیں کررہے ہیں لیکن بحران ہے کہ دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے جب کہ اسکے برعکس چین لگاتار ترقی کرتاجارہا ہے اور اپنے عالمی سیاسی اور معاشی اثرات کو بھی بڑھا رہاہے اور عالمی سیاست کے ماہرین اب چین کو مستقبل کا سیاسی اورمعاشی سپرپاور ماننے لگے ہیںاورجو ملک دنیا کی سپرپاور ہوگا وہ مستقبل میں ہونے والے تہذیبوں کے تصادم میں بس اپنی ترقی کرنے پر توجہ مرکوز رکھتے ہو ئے غیرجانبدار رہے گا اور اسے رہنا ہی ہوگا۔ جب کہ دونوں طرف کی طاقتوں کے پاس ایٹمی اسلحے اور دور تک مارکرنے والی میزائل بھی ہیںاورجو ملک دنیا میں سپرپاور ہوگا اس کے مفادات دنیا کے دیگر ملکوں سے وابستہ
ہوتے ہیں اور وہ ملک اپنے اہم مفادات کی حفاظت اور اپنے دوستوں کی مدد کیلئے آگے آتے ہیںاور مداخلت کرتے ہیں جیسے آج کا سپرپاور امریکہ پوری دنیا میں مداخلت کرتا ہے۔ کہیں پر جمہوریت کے نام پرکہیں پر انسانیت کے نام پر۔امریکہ اورمغربی ممالک جس معاشی بحران میں گزشتہ تین چار سالوں سے مبتلا ہیں اوروہ لگاتار اس سے نکلنے کی کوشش کررہے ہیںاور اس میں اپنی پوری صلاحیت اور ذہانت لگا رہے ہیں، لیکن وقتی طور پر کچھ سکون حاصل کرنے کے بعد وہ اس میں پھر دوبارہ کسی نہ کسی شکل میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔اب تویہ ڈر لگتا ہے کہ بحران ان ملکوں کی تباہی اور بکھرنے کے ساتھ ہی نہ ختم ہو، کیونکہ روس بھی تمام ترقی اور فوجی طاقت کے ہوتے ہوئے بھی اپنے مالی بحران سے نجات نہیں پاسکا اور بکھرگیا، روس بھی اپنی معیشت کو تب تباہ کر بیٹھا جب وہ افغانستان میں ایک غیر ضروری جنگ دس سال تک لڑتارہا تھا اور تباہی اس کا مقدر بنی۔ پھر اسی تاریخ نے اب مغربی تہذیب کے سب سے بڑے سرپرست امریکا کے ساتھ خود کو بالکل اسی انداز میں دہرایا ہے اور امریکا و یورپ کی معاشی کشتی افغان جنگ میں الجھنے کے باعث ہچکولوں میں گھری نظر آ رہی ہے اور ان کا کھڑا کیا گیا عالمی نظام جسے نیو ورلڈ آرڈر کا نام دیا گیا تھا یوں لگ رہا ہے کہ جلد یا بدیر چائینیز ورلڈ آرڈر میں تبدیل ہونے والا ہے۔ رہی بات اسلامی تہذیب کی تو وہ اب فکر نو کی روشنی سے جگمگاتی ہوئی اور علم و عمل کی نئی شمعیں جلاتی ہوئی نظر آرہی ہے اور یوں لگ رہا ہے کہ پہلی جنگ عظیم کے اثرات سے مسلمان اب باہر آچکے ہیں اور اسلامی نشاۃ ثانیہ کی کئی عملی و علمی طرح کی تحریکیں ساری دنیا میں کام کررہی ہیں اور بلاشبہ اسلامی دنیا کی واحد جوہری طاقت ہونے اور دنیا کی ممکنہ آئندہ سپر پاور کا آئرن برادر ہونے کی حیثیت میں پاکستان کا کردار اس نئے عالمی نقشے میں اسلامی تہذیب کے نمائندے کی حیثیت سے بہت اہم ہوگا اور جو لوگ اس مملکت خداد کے بارے میں مایوسی اور منفی تاثر پھیلانے میں ہر طرح کے میڈیاٹول کو استعمال کررہے اور حق نمک ادا کررہے ہیں وہ منہ کی کھاتے اور تھوک کر چاٹتے نظر آئیں گے اور یہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب پچھلی صدی میں تشکیل شدہ اس سفاک،بے حس اور اسلام دشمنی پر مشتمل نیو ورلڈ آرڈر کے نام سے پہچانے جانے والے عالمی نظام کے پرانے بخیئے ادھڑیں گے اور نئی قبا کی سلائی کی جائیگی۔