یقیناً یہ یونیورسٹی کافروں کے کسی ملک کی ہے اسلامی ملک کی نہیں،جس کے داخلی دروازے کے اندر ایک بڑی چھت کے اطراف میں دیواروں پر مختلف سلوگنز لکھے گئے ہیں۔ان میں سے ایک سلوگن کچھ اس طرح سے ہے ’’کسی قوم کو تباہ کرنے کیلئے ایٹم بم اور دورتک مار کرنیوالے میزائلزکی ضرورت نہیں اسکی تعلیم کا معیار گرادو، طلبہ و طالبات کو امتحان میں نقل کی کھلی چھٹی دے دو قوم خود بخود تباہ ہوجائیگی ۔ اسکے ناکارہ نظام تعلیم سے نکلنے والے ڈاکٹرزمریضوں میں موت بانٹیں گے ، انجینئرزتعمیرات کو تباہ اور معیشت دان دولت کو برباد کرینگے ، مذہبی رہنماؤں کے ہاتھوں انسانیت برباد اور ججز کے ہاتھوں انصاف کا قتل ہوگا۔ افسر شاہی کرپشن کو اپنا حق سمجھے گی اورچور راستوں سے اپنی نسلوںکو مختلف حکومتی عہدوں پر فائزکروائے گی۔‘‘ کیونکہ کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو نظام تعلیم کی تباہی سے بڑھ کرکوئی عمل کارگر نہیں ۔ ان دنوں ایف ایس سی کے امتحانات ہورہے ہیں اور ایک کنٹرولر امتحانات کا بیٹا علیٰحدہ کمرے میں کتابیں سامنے رکھ کر پیپر دیتے ہوئے پکڑا بھی جاچکا ہے ۔ سندھ کے اکثر اضلاع میں موبائل فون امتحانی سنٹرز میں لیجانے کی کھلی چھٹی ہے کیونکہ وہاں تمام قوانین مرحوم ہوچکے ہیں مگر بھٹو زندہ ہے۔ سرکاری فائلیں پوری کی پوری پڑھ کر ان میں قومہ، فل سٹاپ ، سپیلنگ کی غلطی اورگرامر تک درست اور پھر طنزیہ جملے لکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے کبھی سوچا بھی نہ ہوگا کہ انکے آبائی صوبہ سندھ میں ایسے لوگ جانشینی کے دعویدار ہوں گے جو علم دشمنی میں آخری حدودکو بھی کراس کر جائینگے ۔
بھٹو مرحوم کو انکے اراکین اسمبلی نے سفارش کرکے ایک سرکاری آفیسر کیلئے مدت ملازمت میں ایک سال کی توسیع لے لی ۔ سال گزر گیا تو وہی سفارشی دوبارہ بھٹو کے پاس گئے کہ مذکورہ آفیسر کو ایک سال کی مزید توسیع دیدی جائے بھٹو نے اسکی فائل پر ایک جملہ لکھ کر کوزے میں دریا بند کردیا۔ ''Let him die on the chair.''
پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں اگر کسی حکمران نے تعلیم کے فروغ کیلئے سب سے زیادہ فنڈز دئیے تو وہ ذوالفقار علی بھٹو اور انکے وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن تھے۔ ڈاکٹر مبشر حسن ایسا وسیع تعلیمی بجٹ اور پالیسیاں دیکر گئے کہ اقتدار سے جانے کے کئی سال بعد بھی پنجاب میں تعلیم کے حوالے سے انکی پالیسیوں اور منصوبوں پر عمل جاری رہا ۔پھر علم دشمنی کا دور آگیا، سرکاری سطح پر تعلیم کے فروٖغ کی جگہ دیگر ’’ضروری اُمور ‘‘ نے لے لی اور شعبۂ تعلیم میں پرائیویٹ سیکٹر کی منصوبہ بندی سے حوصلہ افزائی کی گئی ۔ اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ تھوڑا وقت نکال کر لاہور کی16 سو ایکڑ سکیم جسے علامہ اقبال ٹاؤن کہتے ہیں اور اس سے دگنی یعنی 32 سو ایکڑ سکیم جو جوہر ٹاؤن کہلاتی ہے ، کا ازخود سروے کریں اور وہاں سرکاری تعلیمی اداروں بارے معلومات لے لیں۔ علامہ اقبال ٹاؤن جہاں سرکاری سکولوں سے بھرا پڑا ہے وہیں پر پورے ایک بلاک پر مشتمل گلشن اقبال پارک سمیت درجنوںگراؤنڈز موجود ہیں۔ کوئی بتا سکتا ہے کہ 32 سو ایکڑ سکیم یعنی جوہر ٹاؤن میںکتنے بڑے پارک اورکتنے سرکاری تعلیمی ادارے قائم ہیں۔32 سو ایکڑ سکیم کا اوریجنل ماسٹر پلان کیا تھا ۔ اس میں سرکاری سکولوں ، کالجوں ،ہسپتالوں حتیّٰ کہ پارکوں ودیگر سرکاری عمارات کیلئے کتنی جگہ مختص تھی، وہ بعد میں کس کس کو الاٹ کی۔ اگر کوئی بھی تحقیق کرلے تو شاید اسے مزید کرپشن کے ثبوتوں کی ضرورت نہ رہے کیونکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ میاں نواز شریف کو ایل ڈی اے نے وزیر اعظم بنوایا۔
رہی سہی کسر پوری کرنے میاں شہباز شریف آگئے۔ انہوں نے انجینئرنگ اور ڈاکٹرز کی توہین کرتے ہوئے پرائیویٹ کمپنی کو ای کیٹ اور ایم کیٹ کے امتحان لینے کی اجازت دیکر اربوں روپے کا کھلواڑ کیا اب جبکہ ایجوکیشن مافیا کے منہ کو خون لگ چکا ہے تو غریب اور معصوم طلبہ کو لوٹنے کے نت نئے حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔ ایم کیٹ کی فیسوں میں شتر بے مہار اضافہ کردیا گیا ہے ۔ جہاں صرف ایک دن کے امتحانی پرچے کی فیس میں چارگنا اضافہ کیا گیا ہے وہیں پرائیویٹ اکیڈمیوں نے بھی فیسیں بڑھا دی ہیں۔ کیونکہ ایم کیٹ اور ای کیٹ کیلئے سرکاری سطح پر تعلیم کی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ کووڈ- 19کے دوران ڈٹ کر ایجوکیشن مافیا جو کہ حقیقت میں شوگر مافیا سے کئی گنا زیادہ مضبوط اورظالم ہے۔ شوگر مافیا کم از کم نسلوں سے کھلواڑ تو نہیں کررہا اس ایجوکیشن مافیا نے چھٹیوں کی پوری پوری فیس لی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اپنے تعلیمی اداروں کے سٹاف کوگھر بٹھاکرکسی نے نصف، کسی نے چوتھائی اورکسی نے سرے سے تنخواہ ہی نہیں دی۔ تعلیم پر ظلم کا سلسلہ شہباز شریف جہاں چھوڑ کرگئے آنیو الوں نے اس میں اضافہ ہی کیا اور اب این ایل ایل ای کے نام سے ایک نئی تعلیمی ڈکیتی متعارف کروائی جارہی ہے۔یہ نیشنل لائسنسنگ ایجوکیشن کا مخفف ہے اور ایف ایس سی میں 95 فیصد سے زائد نمبر لیکر میڈیکل کالجوں میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات پانچ سال میں مشکل ترین کتابیں دن رات پڑھ کر ڈگری مکمل کرکے بھی اب ہاؤس جاب نہیں کرسکیں گے کیونکہ ہاؤس جاب کیلئے اب انہیں علیحدہ سے ایک امتحان دینا پڑیگا جس کی فیس بارہ ہزار اور پانچ سال میں پڑھی گئی درجنوں کتابوں کا امتحان محض ایک پیپر میں دینا ۔ہاؤس جاب کیلئے یہ امتحان اسے لازمی قراردیا جارہا ہے گویا ’’مرے کو مارے شاہ مدار ۔ ‘‘ ویسے سوچنے کی بات یہ ہے کہ تمام تر مظالم ، گستاخیوںاور شرک کے باوجود اکبر الہ آبادی کے بقول ’’ فرعون کو کالج کی نہیں سوجھی تھی‘‘ مگر ان کلمہ پڑھنے والے فرعونوں کا پاکستان جیسے ملک میں جہاں غربت کی شرح خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے وہاں تعلیم پر مختلف ہتھیاروں اور حربوں سے حملہ فرعون کی سرِ عام پڑی لاش کو بھی مات دے رہا ہے ۔آج اگر فرعون ہوتا تو اسی ایجوکیشن مافیا سے بچوں پر ظلم کرنے کے نت نئے حربے سیکھ رہا ہوتا۔