حضرت علی ؓ کا فرمان ہے کہ قربانی کے جانور کا خون کا ایک قطرہ گرتے ہی تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔سال کے دس عظیم اور سب سے زیادہ پسندیدہ دن (1 سے 10)ذوا لحج جن میں نیک اعمال کر کے اور نیکیاں کما کر اللہ جلِ شان ھو کے محبوب ترین بندے بن سکتے ہیں۔عید قربان میں چند دن رہ گئے ۔ہر گھر کے باہر جانور نظر آرہے ہیں۔ کل سیٹلائٹ ٹاون ،کمرشل مارکیٹ میں روڈ پر کھڑے برگزیدہ بزرگ ہستی سامنے آگئے۔لوگوں کا ہجوم کو دیکھ کر زور و شور سے پکارنے لگے،میرے بھائیو، میرے بیٹو،دھیان کرو۔میری آوازغور و فکر سے سنو،دوسری قومیں،تعلیم ،تحقیق،محنت ،ایمانداری کے باعث بہت آگے نکل چکی ہیں لھذا ہمیں بھی اس طرف دھیان دینا پڑے گا۔ہمارے پیارے بچے ، طالبِ علم ،بے بس،مجبور اوربے سروسامان میں ہیں۔قربانی کی کھالیں ایسے غریب اور بے سہارا کو دیں۔ اسلام کی تعلیمات پوری ہو چکی ہیں۔سائنسی تعلیم کے لے ان کی مدد کی ضرورت ہے۔جب تک میرے بیٹے سائنس کی تعلیم اور نئی تحقیق وتخلیق میں آگے نہیں نکل جاتے ،ہماری قوم ہر لحاظ سے کمزور اور محکوم رہے گی۔محنتی ،قابل، لائق اولاد کو پوری پوری مالی مدد دے کر کامیابی کی طرف لے جائیں۔ دینی تعلیم سے بے حساب متقی ،پرہیزگار بنے۔اب ان کو سائنس کی تعلیم دے کر برسرِروزگار بنانا ہے۔ہر روز استعمال کی اشیاء بنانے کے قابل ہو جائیں جس جگہ سائنس کا طالبِ علم ہے ،تحقیق، تخلیق او رچھان بین میں مصروف ہے۔اس کو قربانی کی کھالوں سے مدد کرنا ثواب ہے۔جس تعلیم سے دوسری اقوام کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔علم کا حصول مقدس جہاد ہے۔ہمارے ملک میں کتب خانوں میں کتابوں پر کئی کئی سالوں سے گرد و غبار اور مٹی جم رہی ہے۔کتابوں کو کھول کر پڑھنے کا رواج نہیں رہا۔اقتدار کے خواہش مند کبھی نہیںبتاتے کہ کتنی تعلیم،عقل ،فہم و فراست اس کے پاس ہے یا ان پڑھ ہیں۔بزرگ ہستی رکی ٹھنڈی سانس لی اور پھر بولی، جب تک میرے بیٹے ہر روز استعمال ہونے والی سشیاء خود نہیں بنایئں گے،خوراک خود پیدا نہیں کریں گے،محنت جفاکشی سے مزید علم و فن حاصل نہیںکریں گے۔،ہم محکوم،مجبور، بے بس غربت میں زندگیاں گزرتے رہیں گے۔قربانی کھالیں جمع کر کے اربوں روپے جمع ہو سکتے ہیں۔بے پنا ہ رقم سے بے حساب کتابیںچھپ سکتی ہیں۔لاتعداد کا بیان بن سکتی ہیں۔جس سے فنی تعلیم کا حصول آسان ہو گا۔فنی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ضروریاتِ زندگی ہر جوان اپنی ڈائی سے خود تیار کرنا چاہے گا۔ہر جوان دن بھر کام کرتا ہے۔ چائینا میں ایک بڑا شہر صرف ڈائی فروخت کی جاتی ہیں۔جس ڈائی سے مختلف اشیاء جوان تیار کرتے ہوئے بے پناہ دولت کما رہے ہیں۔ہر ضروریاتِ زندگی کی الگ الگ ڈائی ہے۔گلاس ، پلیٹ ،میز،بٹن الغرض ہر چیز بنانے کی الگ ڈائی ہے۔پہلے فنی تعلیم دی جاتی ہے پھر نوجوانوں کو ڈائی دے کر زندگیاں خوشحال اور ترقی یافتہ بنانے کا سامان دے دیا جاتا ہے۔جوان اپنے لیے اور قوم و ملک کیلے کام کرتا چلا جاتا ہے۔ہر قسم کی ضروریات ِزندگی بن رہی ہیں جس سے ملک خود کفیل اور خوشحال ہو جاتا ہے۔ ایک دفع کی کھالیں جمع کر کے لاتعداد بے روزگار مسلمان نوجوانوں کو روزگار دیا جا سکتا ہے۔قربانی کا اہم مسئلہ یہ ہے کہ یہ کس پر فرض ہے۔اگر ایک گھر میں ایک سے زیا دہ افراد صاحبِ نصاب ہیں تو اس صورت میں اس گھر کیلے ایک قربانی کافی نہ ہو گی۔قربانی ان شرائط پر فرض ہے کہ اگر کسی پر قرض نہ ہو اور وہ موجودہ دور میں2021کے حساب سے ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی مالک ہو تو اس پر قربانی دینا لازم ہو گی،ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولے چاندی جس کی آجکل قیمت 85000 ہے یا اس (85000) کی قیمت کر برابر رقم کا مالک ہو،یا مالِ تجارت ہو جس کی قیمت(85000) ہو یا پھر اس کے مساوی زائد گھریلو سامان ہو۔اللہ ہم سب کو قربانی کی توفیق دے اور ہماری قربانی کو اپنی بارگاہ میں قبول و منظو ر فرمائے(آمین)