مسیحاؤں کے جھرمٹ میں سات روز

 قرآن مجید کا واضح فرمان ہے کہ ’’ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے‘‘ لیکن اس واضح اعلان کے باوجود حضرت انسان اس مادی دنیا میں زیادہ سے زیادہ دیر تک رہنا چاہتا  ہے لیکن تندرستی اور صحت کو برقرار رکھنا اس کے بس میں نہیں‘ وہ جب بیمار ہوتا ہے تو معالج کی ضرورت پڑتی ہے۔ قرآن مجید کے مطابق حضرت لقمان نہ صرف اﷲ تعالیٰ کے نبی اور رسول تھے بلکہ سب سے پہلے حکیم بھی تھے ۔ اس کے بعد انسانیت کی خدمت کا سہرا یونانی حکماء کے سر جاتا ہے جن میں سقراط‘ بقراط‘ بطلیموس‘ افلاطون اور  ارسطو کا ذکر نمایاں ہے ۔یہ لوگ اس وقت پائی جانے والی جڑی بوٹیوں سے حضرت انسان کا علاج کیا کرتے تھے ان کا نام یونانی دواخانوں کی صورت میں آج بھی زندہ ہے۔ 
دنیا کے جدید طبی نظام کی بنیاد ہارون رشید کے زمانے میں رکھی گئی مسلمان حکماء میں بوعلی سینا‘ محمد بن زکریا‘ ‘ ابن نفیس‘ابن زاہر،  ابوالقاسم الزہروی کے نام قابل ذکر ہے۔ بغداد‘ مصر‘ شام‘ ایران‘ سپین‘ مراکش میں ایسے ایسے حکماء موجود تھے جن پر مسلمان صرف گمان کر سکتے تھے لیکن مسلمانوں کے زوال کے ساتھ ہی یورپ والے ان کی کتب اور علاج کا طریقۂ کار اپنے ساتھ لے گئے اور بوعلی سینا کی عالمی شہرت یافتہ کتاب’’ القانون و الشفائ‘‘ 800 سال تک یورپ کے میڈیکل کالجز میں پڑھائی جاتی رہی‘ جس کی بدولت  یورپ بہت آگے نکل گیا اب ان کا مسلمانوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔
 پاکستان میں بیمار آدمی سرکاری ہسپتال جاتا ہوا ڈرتا تھا ۔میرا اپنا تجربہ تھا کہ ایک دفعہ فالج ہوا اور دوسری دفعہ ٹانگ میں فریکچر پر مجھے سرکاری   ہسپتال لے جایا گیا لیکن توجہ نہ ملنے پر پرائیویٹ  ہسپتال منتقل کر دیا گیا لہٰذا اس دفعہ بیمار ہونے پر بھی میں نے پرائیویٹ  ہسپتال سے رجوع کیا لیکن میرے مرض کی تشخیص نہ ہو سکی۔ سرکاری ہسپتال کا مشورہ ملنے پر نوجوان ڈاکٹر زین شریف سے علاج کیلئے رجوع کیا جنہوں نے اینڈو سکوپی اور سٹی سکین کے ذریعے مرض کا پتہ لگانے کی کوشش کی‘ بائیوآپسی کیلئے آغا خان سمپل بھیجا گیا رپورٹ درست آئی لیکن انہوں نے مزید علاج کیلئے نشتر ہسپتال میں داخلے کا مشورہ دیا گیا میرے مرض کے  لئے وارڈ نمبر 10.A مختص ہے اس کے جدت پن کو دیکھ کر احساس ہوا کہ یہاں پر مرض کی تشخیص ممکن ہے ۔ آؤٹ ڈور کے خود کار دروازے اس کی ریسپشن جدید دور کی تمام سہولیات کی غمازی کر رہی تھی۔ وہاں کے خود کار نظام کے تحت وارڈ نمبر 10-A تمام جدید سہولیات سے آراستہ پیراستہ تھا ۔اس میں داخل ہوئے ہاؤس سرجن کے وارڈ میں ہمارا علاج کا طریقۂ کار طے کیا گیا۔ اس کے بعد سینئر ڈاکٹرز کے مشورے سے  معدہ صاف کرنے کیلئے معدے میں نالی ڈالی گئی یہ ایک تکلیف دہ عمل تھا۔  ڈاکٹر‘ نرس اور ان کا ساتھ دینے والے ٹیکنیشنز مریضوں کی بڑی اچھی طرح دیکھ بھال کر رہے تھے۔ دوسرے دن ڈاکٹرز زبیر ملغانی اور ان کے ساتھ عملے نے اینڈوسکوپی کے ذریعے مرض کی تشخیص کی کہ چھوٹی آنت میں سٹنٹ پڑے گا لیکن یہ معیاری قسم اور اعلیٰ قسم کا سٹنٹ تھا۔ بائیوآپسی کی تشخیص کیلئے آغا خان ہسپتال بھیج دیا گیا ۔ سٹنٹ کے حصول کے بعد ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ جناب یاسر زیدی کی سربراہی میں سٹنٹ ڈالا گیا جس مہارت سے انہوں نے یہ سٹنٹ ڈالا اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔ مریض کے لواحقین کو مطلع کیا جاتا ہے۔ علاج کا طریقہ کار نہ صرف میرے لئے بلکہ سب متاثرہ مریضوں کیلئے نہایت اطمینان بخش تھا ۔وارڈ کی تزئین و آرائش اور سہولیات قابل تعریف ہیں تین وقت کھانے کا انتظام سب اچھا تھا اس میں ہر مریض کے نام پر کھانا آتا تھا ۔ جبکہ پاکستان کی روایت کے مطابق اس کے لواحقین  دو دو آدمیوں کا کھانا لیتے تھے اب عوام کو کون سمجھائے کہ وہ غریب مریضوں کے حق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں۔ 
ہسپتال میں داخلے کے دوران رشتہ داروں کے علاوہ راجہ کوثر سعیدی‘ چودھری مظہر حسین ‘ حافظ محمد علی‘ ظفر مجید‘ چودھری محمد اسلم‘ خادم حسین ڈوگر‘ راؤ محمد جفر‘ محمد اسحاق ساقی ان کی اہلیہ نہ صرف خود آئے بلکہ گلدستے‘ جوس لاتے رہے جن کی خوشبو تادیر دماغ میں موجود رہی۔ لاتعداد افراد کے ٹیلیفون صاحبزادہ ظہور خان کی تیمار داری کا تادیر تک مشکور رہوں گا۔  یہ وارڈ اپنے مریضوں کا جس انداز میں علاج کرتا ہے وہ نہ صرف قابل بیان ہے بلکہ سرکاری ہسپتال میں ایک مثالی حیثیت رکھتا ہے جن ڈاکٹرز کے مجھے نام یاد ہیں ان میں ڈاکٹر الیاس‘ ڈاکٹر قاسم‘ ڈاکٹر شہریار کانجو‘ ڈاکٹر  زبیر ملغانی‘ ڈاکٹر خضر‘ ڈاکٹر ممتاز ملک ‘ ڈاکٹر احمد‘ ڈاکٹر توصیف‘ ڈاکٹر وسیم‘ ڈاکٹر اقصیٰ صادق، سٹاف طاہرہ  و دیگر نرسز اور ٹیکنیشنز نمایاں اور قابل تعریف ہیں ۔اس وارڈ کے بہترین انتظام و انصرام کا سہرا ڈاکٹر پروفیسر یاسر حسین زیدی کے سر ہے۔ 
آخر مین حکومت وقت سے گزارش ہے کہ جہاں  وہ  عوام کو جدید وسائل  اور سہولیات  بہم پہنچانے پر خرچ کر رہی ہے  وہیں ایسے خدمت کرنے والے ڈاکٹر حضراتکیلئے بھی  سپیشل پیکج  کا اعلان کیا جائے تاکہ آئندہ اس پیشے سے  وابستہ لوگوں  میں عوام الناس کی خدمت کرنے کا جذبہ موجزن ہو اور عوام کو بھی بہترین خدمات میسر آسکیں۔ 

ای پیپر دی نیشن