پاکستان کی آبادی جس تیزرفتاری سے بڑھ رہی ہے‘ اس سے ہمارے کل کے چھوٹے چھوٹے گائوں اور قصبوں نے بڑے بڑے شہروں کی شکل اختیار کر لی ہے اور ہمیں تعلیم‘ صحت‘ پینے کے صاف پانی‘ نکاسی آب اور رہائشی مکانات کی قلت سمیت بہت سے اہم مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ آبادی کے اس بڑھتے اور پھیلتے ہوئے سیلاب کی وجہ سے غذائی بحران ہمارے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ دوسری طرف توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورتوں نے عوام کی مشکلات اور مسائل میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ ہماری ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے اشیائے ضرورت‘ بجلی‘ گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی طلب و رسد میں تفاوت بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حکومت ان مسائل کے حل کیلئے کسی جامع منصوبہ بندی کی بجائے عوام پر بوجھ ڈال کر اپنی ذمہ داریوں سے جان چھڑانے کے چکروں میںہے اور ’’ہم نے سخت اور مشکل فیصلے کرکے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے‘‘ کی گردان جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت ملک غذائی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے گندم کی نئی فصل آنے کے صرف ایک ماہ بعد سے ہی گندم ڈھونڈنے سے نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے نے جہاں عوام کی مشکلات دوچند کر دی ہیں ‘ وہاں زرعی ماہرین اور حکومتی ترجمانوں کی کارکردگی کا پول بھی کھول کر رکھ دیا ہے جو زرعی پیداوار کے بڑھنے کے فرضی دعوے کرتے رہتے تھے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے کبھی زرعی پیداوار کے بارے میں درست اعدادوشمار پیش ہی نہیں کئے۔ اسی لئے ہمارے حکمران آنے والے غذائی بحران سے بے پروا ہیں۔ ہمارے سب حکمران ہمیشہ ’’سب اچھاہے‘‘ کے الفاظ کو پسند کرتے ہیں اور عوام کے سامنے بلند بانگ دعوے‘ نعرے اور وعدے کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں‘ ماہرین معیشت‘ خارجہ امور‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ مالیات اور دیگر اہم شعبوں کے ماہرین ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں۔ حکومت اس مقصد کیلئے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے خود پہل کرے اور سب کو ساتھ لیکرچلنے کا مشن لیکر ایک وسیع المقاصد کانفرنس کا اہتمام کرے۔بنگلہ دیش نے بھی ایک جامع منصوبہ بندی اور قابل عمل حکمت عملی کے ذریعے اپنے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ کس قدر دکھ کی بات ہے کہ دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود ہم قرضوں کے سہارے اپنی ڈوبی ہوئی معیشت کو سنبھالا دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ہمارے’ ’کشکول گدائی‘‘ نے عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ہم معیشت کو ترقی دینے اور مضبوط بنانے کیلئے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے یہ سوچتے ہیں کہ ’’اقتدار کی کرسی‘‘ تک پہنچنے کیلئے کیا ’’حربہ‘‘استعمال کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد حضرت قائداعظم کی وفات اور قائد ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد سے تخت گرانے کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ ہر آنے والی حکومت‘ ملک کا بیڑہ غرق کرنے کے تمام تر الزامات جانے والی حکومت کے سر مونڈھ دیتی ہے اور پھر ’’کرسی اقتدار‘‘ سنبھالنے کے بعد ملک و قوم کی ترقی کیلئے منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ’’اپوزیشن کو کھڈے لائن لگانے‘‘ اور اپنی کرسی کو بچانے کیلئے سرگرم عمل ہو جاتی ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کی اسی روش کی و جہ سے ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ غیرملکی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے پاکستان کو پسماندہ کی بجائے ترقی پذیر کہنا بھی صریحاً زیادتی ہے۔ہمارے پہاڑ ،میدان،صحرا،دریا‘ سمندر حتی کہ ہر علاقہ معدنی دولت سے بھرا پڑا ہے۔ فلک بوس‘ برف پوش پہاڑوں‘ چوٹیوں‘ خوبصورت وادیوں‘ گنگناتے چشموں‘ آبشاروں‘ خوبصورت شور مچاتے جھرنے‘ تاریخی اور مذہبی مقامات کی وجہ سے ’’ سیاحت کی دولت‘‘ ہمارے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ دنیا بھر کے سیاحوں اور کوہ پیماؤں کیلئے جنت نظیر سیاحتی مقامات بے حد کشش رکھتے ہیں لیکن ہمارے حکمران اور سیاستدان اپنی ناختم ہونے والی سیاسی جنگ میں اس قدر الجھے ہوئے ہیں کہ ان کی توجہ معدنی اور سیاحتی دولت کی طرف جاتی ہی نہیں۔ قدرت کے عطاء کردہ بیش بہا خزانوں سے ہم بھرپور استفادہ کرکے ملک و قوم کو بآسانی خوشحال بنا سکتے ہیں۔اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ ایسا کرے گا کون؟ یقینا عوام کو قربانی کا بکرا بنانے اور مشکل فیصلے کرنے والوں کو یہ ذمہ داری اٹھانا پڑے گی۔ خادم پاکستان کہلانے والے وزیراعظم کو حقیقتاً خادم پاکستان بن کر دکھانا ہوگا انہیں اپوزیشن سمیت معاشرے کے ہر ذمہ دار اور اپنے شعبے کے ماہرین سے خود رابطہ کرناہوگا ۔ حقیقت یہ ہے کہ جب حکومت اور تمام اپوزیشن قومی خدمت کے جذبے کے ساتھ قومی مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کرآگے بڑھیں گے تو پاکستان ایشین ٹائیگر تو کیا عالمی ٹائیگر بھی بن سکتاہے۔ اور پاکستان میں یہ کرشمہ ، کارنامہ اور کاکردگی دکھانے کی صلاحیت موجود ہے ۔ کیا دنیا کبھی سوچ سکتی تھی کہ ایک سوئی بھی نہ بنانے والاملک پاکستان ایٹم بم بھی بناسکتاہے اور میزائل ٹیکنالوجی میں اس قدر آگے جاسکتاہے۔ اگرحکومت اور اپوزیشن اپنے نعروں اور دعوؤں کے مطابق واقعی پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی چاہتی ہیں تو پھر دیر کس بات کی۔ ابھی آگے بڑھیں۔ ملک وقوم کے مفاد میں اپنے اختلافات بھلا کر متحدہوکر عزم ویقین کے ساتھ کام کا آغاز کریں انشاء اللہ مسائل کو بادل بھی چھٹ جائیں گے اور ترقی اور خوشحالی ہمارا مقدر بھی بنے گی۔
پاکستان کے مستقبل کیلئے جامع منصوبہ بندی کی ضرورت
Jul 18, 2022