پنجاب کے ضمنی الیکشن، مریم نوازکا امتحان

Jul 18, 2022

اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مریم نواز ایک قد آور سیاسی شخصیت کے طور پر ابھرکر نہ صرف سامنے آئی ہیں بلکہ انہوں نے اپنے والد نواز شریف کا مقدمہ بھی انتہائی جاندار طریقہ سے کچھ اس انداز میں لڑا کہ ان کے دشمن بھی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے نواز شریف کو سزا سنانے والے جج محمد ارشد کے بارے میں ایک ویڈیو کو متعارف کراتے ہوئے کہا تھا کہ میں اپنے والد کو مصر کے سابق صدر مرسی کی طرح نہیں مرنے دوں گی ۔اس وقت میاں نواز شریف جیل میں قید تھے اور جسمانی طور پر بہت کمزور اور لاغر ہوچکے تھے ۔پھر دنیا نے کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ نواز شریف نہ صرف جیل سے رہا ہوئے بلکہ نیب کے شکنجوں سے بہت دور لندن جا پہنچے جہاں ان کی صحت قابل رشک حد تک بہترہو رہی ہے ۔ کہا یہ جاتا ہے کہ مریم نواز نے بہت نازو نعم کے ماحول میں جنم لیا ، ماشا اللہ اب وہ نواسے کی شادی کی خوشیاں بھی منا چکی ہیں ۔ وہ اپنے والد کے ساتھ کئی مہینے تک اڈیالہ جیل میں قید بھی کاٹ چکی ہیں ۔انہوں نے کسی بھی لمحے خود کو کمزور نہیں ہونے دیا، بالاخر وہ قید سے رہائی پانے کے ساتھ ساتھ اپنی زور دار تقریروں کی بدولت عمران خان کے برابر آ کھڑی ہوئی ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی سیاسی زندگی میں نواز شریف کا حوالہ بہت اہمیت کا حامل ہے اور نواز شریف کے خلاف جتنا بھی پروپیگنڈ ہ کیا جائے لیکن پاکستان کا بالعموم اور پنجاب کا بالخصوص ایک وسیع حلقہ انہیں نہ صرف پسند کرتا ہے بلکہ ہر الیکشن میں انہیں ووٹ دے کر اپنی محبت کا اظہار بھی کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے تعاون کے باوجود عمران خان کو 2018ء کے الیکشن میں دو تہائی اکثریت حاصل نہیں ہو سکی ۔مریم جو اپنی گفتگو اور تقریروں میں نواز شریف کا دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے ذہنوں میں اپنی جگہ بنا رہی ہیں ۔ پنجاب اسمبلی کے وہ ممبران جنہوں نے تحریک انصاف سے بغاوت کرکے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا تھا اور الیکشن کمیشن نے انہیں ڈی سیٹ کردیا تھا۔ 17جولائی 2022ء کو ان کی خالی ہونے والی نشستوں پر الیکشن ہورہے ہیں ۔میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز سمیت مسلم لیگ کے سرکردہ رہنماء حکومتی ذمہ داریوں کی بناپر الیکشن کمپیئن میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اس لیے تمام تر ذمہ داری اکیلی مریم نواز پر آن پڑی ہے ۔ان کے مقابلے میں کوئی عام شخص ہوتا تو بہت پہلے بھاگ جاتا لیکن ان کا مقابلہ عمران خان سے ہے جو شعلہ بیان تقریروں اور دوسروں پر تابڑ توڑ حملہ کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔وہ جہاں بھی جاتے ہیں ، لوگ ان کی تقریر سننے کے لیے دوڑے چلے آتے ہیں ، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ عمران خان اس وقت اپنی بد ترین حکومتی ناکامیوں کے باوجود مقبولیت کی معراج پر اس لیے پہنچ چکے ہیں کہ پہلے انہوں امریکی سازش کا ذکر کرکے لوگوں کو ہمنوا بنایا ، اب امپورٹڈ حکومت کا الزام لگاکر عوام کے دل جیتنے کی جستجوکر رہے ہیں ۔ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنے اور موجودہ حکومت کو ختم کرنے کے لیے وہ سب کچھ کرنے کو تیا ر ہیں ۔ان کی ہرممکن کوشش ہے کہ وہ دوبارہ وزارت عظمی پر فائز ہوجائیں۔ اس کے برعکس شہباز شریف ایک ایسی نازک شاک پر بیٹھے ہوئے قومی معیشت کو سنبھالنے کی جستجو کر رہے ہیں جن کی اتحادی حکومت کے قائم رہنے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔چند ممبران اسمبلی بھی ادھر ادھر ہو گئے تو حکومت ختم ہوسکتی ہے ۔ ان نازک حالات میں عمران خان کے تابڑ توڑ حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مریم نواز سینہ سپر ہیں ۔اگر عمران خاں کے جلسے بڑے ہیں تو مریم نواز کے جلسوں میں بھی اتنے ہی لوگ شریک ہورہے ہیں۔اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ پنجاب کا ضمنی الیکشن عمران خان اور مریم نواز کے لیے امتحان بن چکا ہے۔ دیکھتے ہیں کامیابی کس کے قدم چومتی ہے۔اگر ضمنی الیکشن کی زیادہ نشستوں پر ن لیگ کامیاب ہو گئی تو میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آنے والے پانچ سات سالوں میں مریم نواز کو وزیراعظم بننے سے کوئی نہیں روک سکتالیکن اس منصب پر فائز ہونے کے لیے مریم نواز کو خیبرپخونخوا ، سندھ اور بلوچستان کا رخ بھی کرنا ہوگاتاکہ بینظیر بھٹو کی طرح وہ چاروں صوبوں کی زنجیر کہلا سکیں اور پاکستان کی سیاسی تاریخ کا جزو لاینفک بن جائیں۔

مزیدخبریں