ایبسلوٹلی ناٹ!!!!!

قوم نے فیصلہ سنا دیا ہے کہ نہ تو وہ غلام ہیں، نہ بھکاری، نہ بیرونی نہ اندرونی سازش یا مداخلت برداشت کر سکتے ہیں۔ عوام فیصلہ سنایا ہے کہ پاکستان کو حقیقی آزادی و خودمختاری کی طرف جانا ہے، عوام نے فیصلہ سنایا ہے کہ اسے مالی مسائل، معاشی مسائل سے ڈرا کر الجھایا نہیں جا سکتا، ڈرایا نہیں جا سکتا، عوام نے ہر قسم کی سازش کو مسترد کر کے حقیقی آزادی و خود مختاری کو ووٹ دیا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ثابت کیا ہے کہ پی ٹی آئی کا کہیں کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ پی ٹی آئی سے مراد عمران خان ہے۔ کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ یہ کسی اور کی کامیابی ہے یہ خالصتاً عمران خان کی کامیابی ہے۔ اس کامیابی میں عمران خان کا ساتھ دینے والے مبارکباد کے مستحق ضرور ہیں لیکن کامیابی کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے۔ انہوں نے خود کو ایک مرتبہ پھر مرد بحران ثابت کیا ہے، کپتان نے اکیلے جس طرح تمام سیاسی قوتوں کا مقابلہ کیا ہے ہماری سیاسی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ جوش اور جذبے کی فتح ہے، یہ ملک کے ساتھ محبت کی فتح ہے، یہ عوام کے ساتھ لگن کی فتح ہے۔ پنجاب اور بالخصوص لاہور میں کسی نے سوچا تھا کہ میاں نواز شریف کی ن لیگ کا یہ حال ہو گا، ریاستی مشینری استعمال ہوئی، پری پول رگنگ کا ہر حربہ استعمال کیا گیا، چھاپے مارے گئے، گرفتاریاں ہوئیں لیکن کوئی جبر حقیقی آزادی اور خود مختاری کے بیانیے سے محبت کرنے والوں اور پاکستان کو عالمی طاقتوں کے اثر و رسوخ سے آزاد دیکھنے والوں کو دبا نہیں سکا۔ یہ عمران خان کے بیانیے کی فتح ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ نے ہر گھر تک یہ پیغام پہنچایا ہے کہ پاکستان کو حقیقی آزادی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو بیرونی تسلط سے آزاد کروانا ہے، پاکستان کے لوگوں کو سر اٹھا کر جینے کے راستے پر چلانا ہے۔ عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد سے سترہ جولائی تک کبھی مفاہمت یا درمیانی راستہ اختیار نہیں کیا بلکہ وہ ہر روز یہ پیغام عوام تک پہنچاتے رہے کہ ملک پر حکومت کرنے والی سیاسی قیادت اس کی اہل نہیں ہے، یہ لوگ ملکی مسائل حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے، عمران خان نے پوری قوت اور جذبے کے ساتھ یہ پیغام عوام تک پہنچایا اور عوام نے کپتان کی آواز پر لبیک کہا، عوام نے دہائیوں سے سیاست کرنے والوں کو مسترد کرتے ہوئے " ایبسلوٹلی ناٹ" کا ساتھ دیا ہے۔ 
چودھری مونس الٰہی لکھتے ہیں "ن لیگ کی شکست، پاکستان کی جیت۔ آج پنجاب شریف خاندان کی غلامی سے آزاد ہو گیا۔اصل تبدیلی کا عمل تواب شروع ہو گا۔ عمران خان کی قیادت میں پنجاب اور پاکستان اب آگے بڑھے گا۔" 
مریم نواز بھی شکست تسلیم کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ "مسلم لیگ ن کو کھلے دل سے نتائج تسلیم اور عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہیے۔ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے۔ دل بڑا کرنا چاہیے۔ جہاں جہاں کمزوریاں ہیں، ان کی نشاندہی کر کے دور کرنے کے لیے  محنت کرنی چاہیے۔ انشاء اللہ خیر ہو گی۔"مسلم لیگ نے جماعت کی سطح پر شکست تسلیم کرتے ہوئے بڑے دل کا مظاہرہ کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں کو اب شکست کو تسلیم کرنا سیکھ لینا چاہیے۔ ضمنی انتخابات میں ن لیگ کی شکست سے اس تاثر کا خاتمہ ہوا ہے کہ لاہور اور پنجاب سے کوئی اور جیت نہیں سکتا۔ یہ شکست سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کے لیے بھی ایک سبق ہے۔ ہارنے والوں کو بھی انداز ہوا ہے کہ دو ہزار اٹھارہ میں عوام نے ووٹ کس کو دیا تھا۔ متحدہ اپوزیشن کے ہاتھ کچھ نہ آیا، ایک بھرم تھا وہ ٹوٹا، مہنگائی کا ملبہ اپنے سر لیا اور انتخابات میں بدترین شکست نے آنے والے عام انتخابات کے لیے بھی مشکلات بڑھا دی ہیں۔ عمران خان کی ہمت نہ ہارنے کی عادت نے انہیں کامیاب بنایا ہے۔ عمران خان نے ایک مرتبہ پھر اپنے سیاسی مخالفین کو غلط ثابت کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے یہ کامیابی ایک نیا امتحان ہے اور متحدہ اپوزیشن کے لیے بہت بڑا سبق ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والے ن لیگ کی طرف سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ عوام نے سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کو ناپسند کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ پی ٹی آئی کو بھی ن لیگ سے مستعفی ہونے والوں کو قبول نہیں کرنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فروغ جمہوری نظام کی بقاء کے لیے ضروری ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کو بھی اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ ہر وقت اداروں کو متنازع بنانا درست رویہ نہیں ہے۔ اداروں پر عدم اعتماد سے عوامی سطح پر بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے۔ نفرتیں پرورش پاتی ہیں۔ کل تک الیکشن کمشن پر اعتراض کیا جا رہا تھا کیا آج کامیابی کے بعد الیکشن کمشن سے معذرت کی جائے گی۔ ریاستی اداروں پر عیر ضروری عدم اعتماد سے عدم استحکام کا راستہ نکلتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے۔ مستقبل میں مختلف سیاسی جماعتوں کی حکمت عملی کیا ہو گی اس پر بھی آنے والے دنوں میں بات ضرور ہو گی لیکن یہ بات طے ہے کہ اب پاکستان تحریکِ انصاف کی ہوا پورے ملک میں چلنے کے واضح امکانات موجود ہیں۔ یہ سیاسی رجحان تمام جماعتوں کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے اگر ن لیگ پنجاب سے ہار سکتی ہے تو یاد رکھیں سندھ سے پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی شکست ہو سکتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن تو پہلے ہی مشکلات کا شکار ہیں ان کے مسائل میں یقینی طور پر اضافہ ہو گا۔

ای پیپر دی نیشن