ضمنی الیکشن میں ووٹروں کا جوش وخروش

چند الفاظ کو ہم ٹھوس حقائق کی وجہ سے نہیں بلکہ عادتاََ بلاجواز دہرائے چلے جاتے ہیں۔یوں ان کی وقعت ختم ہوچکی ہے اور میری دانست میں ’’تاریخی‘‘ بھی ایسا ہی ایک لفظ ہے۔اس اعتراف کے باوجود یہ کہنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کہ اتوار 17جولائی 2022ء کی صبح اُٹھ کر یہ کالم لکھتے ہوئے مجھے آج کا دن ’’تاریخی‘‘ ٹھہرانا پڑے گا۔آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں اس روز پنجاب اسمبلی کی ڈرامائی اور کئی ہفتوں تک پھیلی کشمکش کی وجہ سے خالی ہوئی 20نشستوں پر ضمنی انتخاب ہورہے ہیں۔ان کے نتائج فقط صوبائی اسمبلی پر ہی اثرانداز نہیں ہوں گے۔ ان کی وجہ سے حمزہ حکومت اپنا وجود برقراررکھنے میں ناکام ہوگئی تو معاملہ قبل از وقت عام انتخاب کے اعلان سے قبل نہیں رکے گا۔اس کی بدولت ہمارے ہاں گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل پھیلتی اور گھمبیر تر ہوتی اندھی نفرت وعقیدت پر مبنی تقسیم شدید تر ہوجائے گی۔حتمی نتیجہ اس کا میرے منہ میں خاک کامل انتشار وخلفشار بھی ہوسکتا ہے۔ ابتری کا ایسا بحران جس سے نجات کی صورت ہمارے سیاستدان ہی نہیں ریاستی ادارے بھی دریافت نہیں کر پائیں گے۔
روایتی اور سوشل میڈیا پر حاوی بیانیہ کا تجزیہ کریں تو عمران خان صاحب نے جارحانہ مستقل مزاجی سے اپنے حامیوں کو اس امر پر قائل کردیا ہے کہ انہیں امریکہ نے ’’سازش‘‘ کے ذریعے وزارت عظمیٰ سے فارغ کروایا۔ ہمارے عوام کی اکثریت شاید مبینہ سازش کو 1950ء سے ہوئی ایسی بے شمار سازشوں کی طرح برداشت کرلیتی۔ مبینہ سازش کی بدولت قائم ہوا حکومتی بندوبست جسے عمران خان صاحب ’’امپورٹڈ‘‘ پکارتے ہیں اقتدار سنبھالتے ہی مگر مہنگائی کا جان لیوا سیلاب برپا کرنے کا واحد سبب نظر آیا۔بجلی کی لوڈشیڈنگ کے طویل دورانیے بھی واپس لوٹ آئے۔ ان دونوں نے عوام کو حواس باختہ بنادیا ہے۔وہ یہ حقیقت تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں کہ ’’حادثہ‘‘ ایک دم نہیں ہوتا۔ اپنی روزمرہّ زندگی کی معاشی ضروریات کے حوالے سے جن مشکلات کا ان دنوں ہم سامنا کررہے ہیں’’وقت‘‘ اس کی برسوں سے پرورش کررہا تھا۔
ملکی سیاست کا دیرینہ طالب علم ہوتے ہوئے اسی باعث میں اس کالم میں بارہا فریاد کرتا رہا کہ عمران حکومت کو اس کی آئینی مدت مکمل کرنے دی جائے۔اسے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کا خیال ترک کردیا جائے۔ہوس اقتدار کی مگر اپنی کشش ہوتی ہے۔عمران مخالف سیاستدان باہم مل کر اس کے سحر میں مبتلا ہوگئے۔وفاقی حکومت پر ’’قابض‘‘ ہوجانے کے باوجود تاہم عثمان بزدار کو ’’لوٹوں‘‘ کی مدد سے ہٹانا ضروری نہیں تھا۔ انہیں ہر صورت ہٹانا ہی مقصود تھا تو حمزہ شہباز کو ان کی جگہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر بٹھانے کے خواہاں افراد کو تحریک انصاف سے باغی ہوئے اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنی نشستوں سے مستعفی ہوجانے کی جانب مائل کرنا چاہیے تھا۔ انہیں ’’لوٹا‘‘ بناکر ذلت ورسوا کرنا احمقانہ قدم تھا۔بہرحال جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔ماضی کو اب لوٹا یا نہیں جاسکتا۔ مستقبل کی تیاری کرنا ہوگی۔
ذات کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں انتخابی حلقوں میں جائے بغیر گھر بیٹھے ہی ان کے نتائج طے کردینے کا عادی نہیں۔مجھے ہرگز خبر نہیں کہ آج کے انتخاب کیا خبر لائیں گے۔ میڈیا کا بغور مشاہدہ البتہ یہ عندیہ دے رہا ہے کہ تحریک انصاف نے اپنے حامیوں کو یہ ضمنی انتخاب ’’تخت یا تختہ‘‘ والے جنون کے ساتھ لڑنے کے لئے تیار کرلیا ہے۔مسلم لیگ (نواز) ابتداء میں انتخابی عمل کی بابت اپنی دیرینہ مہارت پر کامل انحصار کرتی رہی۔ بعدازاں مگر مجبور ہوئی کہ محترمہ مریم نواز کو عمران خان کے پُرجوش جلسوں کا اثر کو زائل کرنے کے لئے میدان میں اتارا جائے۔ یوں مقابلہ کانٹے دار ہوگیا۔ کسی بھی فریق کے لئے ’’واک اوور‘‘ والا ماحول باقی نہیں رہا۔
مجھے خدشہ تھا کہ مہنگائی اور محلاتی سازشوں سے گھبرائے عوام کی اکتاہٹ ضمنی انتخابات میں لوٹرن آئوٹ دکھائے گی۔ یہ کالم لکھنے سے قبل مگر تھوڑی دیر کوٹی وی دیکھا تو عوام پرجوش اور بھرپور اندازمیں ووٹ ڈالنے کو بے چین نظر آئے۔ شہری حلقوں میں یہ رحجان بہت نمایاں تھا۔ مبصرین کی اکثریت یہ طے کئے بیٹھی ہے کہ بھاری ٹرن آئوٹ تحریک انصاف کو زیادہ فائدہ پہنچائے گا۔شہری حلقوں میں اگر خواتین اور نوجوان ووٹر اپنے ووٹ ڈالنے کو بے تاب نظر آئے تو اس کا اثر آج کے ڈیجیٹل دور میں قطعی دیہی حلقوں پر بھی اثرانداز ہوگا۔ اگر مذکورہ مفروضہ میدان میں عمل پیرا نظر آیا تو تحریک انصاف مسلم لیگ (نون) کے مقابلے میں زیادہ نشستیں جیت سکتی ہے۔
ٹی وی سکرینوں پر نظر آئے جوش وخروش کے باوجود تحریک انصاف اگر اپنی توقع کے مطابق نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہی تو ’’دھاندلی‘‘ کا بیانیہ مضبوط تر ہوجائے گا۔اس کا یہ بیانیہ 1977ء میں برپا ہوئی تحریک کی جانب لے جاسکتا ہے یانہیں اس کی بابت اس وقت اپنی رائے بیان کرنے سے اجتناب کو ترجیح دوں گا۔انتظامیہ اور الیکشن کمیشن اگر ممکنہ تحریک کا واقعتا تدارک کرنا چاہ رہے ہیں تو انہیں آج کے انتخابات کو ہر صورت صاف وشفاف ہوتا دکھاناہوگا۔ اس کے علاوہ انتخابی نتائج کے اعلان میں اس نوعیت کی ’’تاخیر‘‘ سے ہر صورت گریز کرنا ہوگا جس نے 2018میں ہوئے عام انتخابات کی بابت کئی سوالات اٹھا دئے تھے۔
تمام تر جوش وجذبے کے باوجود اگر انتخابی عمل شفاف انداز میں منصفانہ رہا۔اس کے نتائج تحریک انصاف کی توقع کے مطابق برآمد نہ ہوئے تو عمران خان صاحب کے لئے ’’دھاندلی‘‘ کے الزامات کی بنیاد پر لوگوں کو احتجاجی تحریک کی جانب راغب کرنا ممکن نہیںرہے گا۔حمزہ شہباز بھی اس کے نتیجے میں ’’مستحکم‘‘ ہوجانے کے بعد ’’انتقامی‘‘ بن جانے کو مائل ہوں گے۔مخالفین کا مکوٹھپنے کے لئے ریاستی قوت بے دریغ انداز میں استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گے۔انہیں ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے پر قائل کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ تحریک انصاف نے اگر اکثریت حاصل کرنے کے بعد صوبائی حکومت دوبارہ بنالی تو وہ بھی اپنے مخالفین کو ہر صورت ’’سبق‘‘ سکھانا چاہے گی۔قصہ مختصر چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں آئندہ کئی مہینوں تک ابتری اور خلفشار کا ماحول ہی نظر آئے گا۔کاش ہم اس دلدل میں گرفتار نہ ہوئے ہوتے۔

ای پیپر دی نیشن