نوجوان نسل میں سیدنا عثمان غنی ؓکی صفت حیا کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت

اسلام آباد(نا مہ نگار)حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو رسول اللہؐ کا دوہرا داماد ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔سیدنا عثمان غنی ابتدا اسلام قبول کرنے والے چند افراد میں سے ہیں آپ نے پہلے حبشہ پھر مدینہ کی طرف ہجرت فرما کر ذوالہجرتین کا لقب پایا ۔ان خیالات کا اظہار ناظم مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن اسلام آباد عبدلباسط عباسی، ناظم عمومی دلاور حفیظ ناظم اطلاعات زید عباسی نے’’نوائے وقت‘‘فورم  میں اظہار خیال کر تے ہوئے کیا۔  انہوں نے کہا کہ مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سیدنا عثمان غنیؓ کے یوم شہادت کو دوہرے دامادِنبیؐ کے عنوان سے منارہی ہے، اسی مناسبت سے ملک بھر میں سیدنا عثمان غنی کے فضائل مناقب پر دروس قرآن، طلبہ سیمینارز اور نشستوں کا اہتمام کیا جائے گا۔اسلام قبول کرنے کے بعد رسول ؐنے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اپنی بیٹی حضرت رقیہ کا نکاح دے کر اپنی دامادی کا شرف بخشا۔ جب حضرت رقیہؓ کا انتقال ہوگیا تو آپؐنے اپنی دوسری بیٹی حضرت ام کلثومؓ کا نکاح بھی آپ سے کر دیا، اسی وجہ سے آپ ذوالنورین کہلائے۔ جب ان کا بھی انتقال ہوگیا تو آپؐ نے فرمایا اگر میری چالیس بیٹیاں بھی ہوتیں تو ایک ایک کرکے عثمان کے نکاح میں دے دیتا۔انہوں نے کہا کہ سیدنا عثمان غنی ؓجود وسخا کے منبع تھے۔ آپؓ کا مال اسلام اور مسلمانوں کے لیے ہر وقت حاضر رہتا تھا۔آپ رضی اللہ عنہ اس قدر باحیا تھے کہ فرشتے بھی آپ سے حیا کرتے تھے۔آپؓ 12 سال تختِ خلافت پر فائز رہے۔ آپ کے ذریعے اللہ تعالی نے مسلمانوں کو بیشمار فتوحات عطا فرمائیں۔انہوں نے کہا کہ حضرت عثمان غنی کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ آپ نے پوری امت کو قرآن کریم کے ایک نسخے پر جمع کردیا اور آج تک پوری امت میں وہی قرآن کریم کا وہی نسخہ پڑھا جاتا ہے۔آخری ایام میں جب باغیوں نے آپ کے گھر کا گھیرا ئوکر لیا تو باوجود صحابہؓ کے اصرار کے آپ نے مدینہ میں خون ریزی نہیں کی۔ آپؓ اپنی جان تو پیش کردی لیکن امن کو تہہ بالا نہیں ہونے دیا۔آج سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی زندگی تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مشعل راہ ہے۔ سیرت عثمان کو اپنا کر امت مسلمہ میں شعور و آگہی پیدا کی جاسکتی ہے، اور اس بے حیائی بے دینی کے دور میں نوجوان نسل میں سیدنا عثمان غنی کی صفت حیا کو اجاگر کرنے کی اشد ضرورت ہے، آج کے مالداروں کے لیے سیدنا عثمان کا اسوہ حسنہ بہترین نمونہ ہے کہ اگر آپ کا مال ضرورت مندوں کے کام نہیں آتا تو یہ وبال جان ہے۔

ای پیپر دی نیشن