مشکلات میں گھرے پاکستانیوں کے لیے معاہدہ کون کرے گا؟؟؟؟

آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا سب خوش ہیں، مبارکبادیں دی جا رہی ہیں، تعریف ہو رہی ہے، حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے، حکومتی اتحاد میں شامل ہر جماعت یہ سمجھتی ہے کہ انہوں نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے۔ پنجاب کے سابق وزیر اعلی حمزہ شہباز کہتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف آگے بڑھ کر بات نہ کرتے تو ملک ڈیفالٹ ہو جاتا۔ کوئی شک نہیں عوام شدید مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں، آٹا خریدنا، بجلی کے بل اور بچوں کی فیس دینا مشکل ہوگیا ہے۔ آج تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر معاشی پالیسیوں کے تسلسل کا معاہدہ کرنا چاہیے جسے آئندہ دس سال کے لیے آئینی تحفظ حاصل ہو۔ بات تو ٹھیک ہے کہ معاہدے ہونے چاہییں اور ملک کے بہتر مستقبل کے لیے سب کو اتفاق رائے سے آگے بڑھنا چاہیے لیکن یہاں تو ہر روز نئے مفادات ہوتے ہیں، نئے خیالات ہوتے ہیں، نئے نظریات ہوتے ہیں، یہاں کون ملکی مفاد سوچتا ہے سب کو اپنی اپنی سیاست اور سب کو اپنا مستقبل عزیز ہوتا ہے۔ اگر ملکی مستقبل عزیز ہو تو سیاسی جماعتیں متبادل سیاسی قیادت پر کام نہ کرتیں۔ کیا متبادل سیاسی قیادت ملک کی ضرورت نہیں ہے۔ بہرحال بات کسی اور طرف نکلے گی لیکن یہاں عجب معاملہ ہے جن پر الزام ہے کہ وہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار ہیں آج تو وہ بھی آئی ایم ایف پروگرام کو تسلیم کر رہے ہیں۔ عجب دو رخی سیاست ہے ایک طرف آئی ایم ایف کے پروگرام کی حمایت کر رہے ہیں تو دوسری طرف بجلی مہنگی ہونے پر تنقید بھی کر رہے ہیں۔ ملک کو موجودہ حالات تک پہنچانے والوں میں سے ایک نمایاں نام حماد اظہر کا ہے موصوف فرماتے ہیں "بجلی کے نرخ پی ڈی ایم حکومت نے ایک سال میں اتنے بڑھا دئیے کے اس کی مانگ اور بل کولیکشن میں کمی واقع ہو چکی۔ اکثریت صنعت بند یا بند ہونے کے قریب ہے۔ لوڈشیڈنگ اور گردشی قرضوں میں اضافے کی رفتار بھی بڑھ گئی۔ نکمی 13 جماعتیں اپنے کیس معاف کروانے کے چکر میں عوام کی تباہی اتار گئیں"جناب کیا قوم کو بتانا پسند کریں گے کہ پہلے آئی ایم ایف سے تاخیر سے معاہدہ کرنے اور بعد میں اس معاہدے کو توڑنے کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام میں پاکستان تحریک انصاف کا کیا کردار ہے، اندرونی و بیرونی سطح پر سازشوں کا جال بچھانے اور لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے حماد اظہر کی جماعت نے کون سا ایسا کام ہے جو نہیں کیا۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں جو کچھ حماد اظہر اور ان کے سیاسی گرو سے ہو سکا انہوں نے کیا ہے۔ حکومت پر تنقید کرتے ہیں لیکن آئی ایم ایف پروگرام کی حمایت کرتے ہیں اگر یہ پروگرام ملک کی ضرورت تھا تو پی ٹی آئی حکومت نے اس معاہدے کو کیوں توڑا۔ آج آئی ایم ایف کی ناصرف حمایت کر رہے ہیں بلکہ ان سے عام انتخابات کی ضمانتیں بھی مانگ رہے ہیں۔ ایک طرف حقیقی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں تو دوسری طرف بیرونی طاقتوں کو مدد کے لیے پکارتے ہیں یہاں تک اسرائیل سے بھی مدد ملے تو خوشی سے پاگل ہو جاتے ہیں۔ حماد اظہر اور ان کے سیاسی گرو ملک مخں مہنگائی اور بے روزگاری کے اصل ذمہ دار ہیں۔ یہ اپنے دور میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹس کو شاید بھول گئے ہیں۔ ان کے دور میں خط غربت سے نیچے کتنے فیصد لوگ زندگی گذار رہے تھے۔ شاید یہ بھی بھول گئے۔ پی ٹی آئی جب حکومت میں تھی اس وقت بھی ان کا دماغ کم چلتا اور زبان زیادہ چلتی تھی اب تو اکثریت کا دماغ مکمل طور پر بند نظر آتا ہے۔ حماد اظہر کہتے ہیں "تحریک انصاف دور میں سو روپے کی چینی ہو گئی تو ایک طوفان آ گیا تھا۔ آج صرف چینی ہی نہیں بلکہ آٹا، دالیں، پیاز، بجلی اور ہر چیز کی قیمت مہنگائی کے ریکارڈ توڑ چکی۔ پی ڈی ایم حکومت بلاوجہ ہی نہیں الیکشن آگے کرانے کے لئے پیروں میں گرتی پڑ رہی ہے۔ عوام ان کے احتساب کے لئے بے تاب ہے۔" جناب یہ بھی بتائیں تحریک انصاف کو جب حکومت ملی اس وقت چینی کی قیمت کیا تھی، آٹا اور دالیں کس بھاو تھیں، سبزیاں، پھل اور ادویات کی قیمتیں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں یہ بھی لوگوں کو بتائیں اور پورا سچ بولیں۔ یہ بھی یاد رکھیں پی ٹی آئی کے دور میں چینی ایک سو نہیں بلکہ ایک سو بیس سے پچیس کے دوران فروخت ہوتی رہی ہے۔ سچ بولنا سیکھیں، غلط بیانی کی عادت ترک کریں۔ قوم کو گمراہ کرنا بند کریں۔ اگر اشیا خوردونوش کے حوالے سے آپکو کسی بھی سطح پر گفتگو کی خواہش ہے تو آپ اعدادوشمار کے ساتھ آئیں یقین جانیے حقائق کا سامنا نہیں کر پائیں گے۔ مہنگائی کا طوفان پی ٹی آئی حکومت کا تحفہ ہے اس میں حقیقی اور مصنوعی مہنگائی دونوں طرح سے عوام کو تکلیف میں مبتلا کیا گیا ہے۔ بہرحال اس ساری مشق میں عام آدمی پس کر رہ گیا ہے۔آج ملک میں عام آدمی کے لیے سانس لینا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ بجلی، گیس، اشیاءخوردونوش، ادویات ہر چیز پہنچ سے باہر ہو رہی ہے۔ جولائی اور اگست میں بجلی کے بلوں سے عام آدمی کی جیب پر پڑنے والا بوجھ یقینا ناقابل برداشت ہو گا۔ اسی طرح سردیوں میں گیس کے بل ادا کرنا مشکل ہوں گے۔ آمدن جہاں تھی وہیں ہے بلکہ کم ہو گئی ہے روزگار کے مواقع کم ہوئے ہیں جب کہ اخراجات میں مسلسل اضافہ شہریوں کو ذہنی طور پر بیمار کرنے کی بڑی وجہ ہے۔لاہور، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت کئی شہروں میں آٹے اور چینی کی قیمتوں میں مسلس اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، کراچی میں ہول سیل میں چینی 137 روپے کلو جبکہ گندم کا فی کلو بھاو¿ چار سے پانچ روپے کم ہونے کے باوجود شہر میں آٹا مہنگا ہوا ہے۔کوئٹہ میں ایک کلو چینی دس روپے کے اضافے کے بعد ایک سو پچاس روپے، پشاور میں ایک کلو چینی ایک سو پینتیس روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔لاہور میں بیس کلو آٹے کے تھیلے کی قیمت پچاس روپے اضافے کے بعد دو ہزار آٹھ سو پچاس روپے ہو چکی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقے کو اس اضافے سے کوئی فرق نہیں پڑتا یہ مشکلات صرف عام آدمی کے لیے ہیں۔ آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر کہاں جائیں گے کون جانتا ہے۔ پھر سے مالداروں کو قرض دے کر معاف کر دیا جائے کون پوچھنے والا ہے۔ اگر ملک میں مالی بدانتظامی ہے تو اس کی ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر ٹیکس اکٹھا نہیں ہوتا، امراءکو رعایتیں دی جاتی ہیں تو بوجھ عام آدمی پر کیوں ڈالا جاتا ہے۔ رعایتیں لینے والے بوجھ کیوں نہیں اٹھاتے۔ کیا کوئی ایک معاہدہ عام آدمی کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔ وہ عام آدمی جس کو صرف ایک تنخواہ ملتی ہے یا یومیہ اجرت پر زندگی گذارتا ہے اس کا حال کون پوچھے گا۔ امراءاور طاقتور افراد کو تو اربوں کھربوں کے قرضے معاف ہوتے ہیں لیکن ان قرضوں کا بوجھ عام آدمی پر ڈالا جاتا ہے۔ کاش کوئی معاہدہ کروڑوں افراد کی زندگی میں سہولت پیدا کرنے کے لیے بھی ہو جائے۔
آخر میں داغ دہلوی کا کلام
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
تیور ترے اے رشک قمر دیکھ رہے ہیں
ہم شام سے آثار سحر دیکھ رہے ہیں
میرا دل گم گشتہ جو ڈھونڈا نہیں ملتا
وہ اپنا دہن اپنی کمر دیکھ رہے ہیں
کوئی تو نکل آئے گا سر باز محبت
دل دیکھ رہے ہیں وہ جگر دیکھ رہے ہیں
ہے مجمع اغیار کہ ہنگام محشر
کیا سیر مرے دیدتر دیکھ رہے ہیں
اب اے نگہ شوق نہ رہ جائے تمنا
اس وقت ادھر سے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں
ہر چند کہ ہر روز کی رنجش ہے قیامت
ہم کوئی دن اس کو بھی مگر دیکھ رہے ہیں
آمد ہے کسی کی کہ گیا کوئی ادھر سے
کیوں سب طرف راہ گزر دیکھ رہے ہیں
تکرار تجلی نے ترے جلوے میں کیوں کی
حیرت زدہ سب اہل نظر دیکھ رہے ہیں
نیرنگ ہے ایک ایک ترا دید کے قابل
ہم اے فلک شعبدہ گر دیکھ رہے ہیں
کب تک ہے تمہارا سخن تلخ گوارا
اس زہر میں کتنا ہے اثر دیکھ رہے ہیں
کچھ دیکھ رہے ہیں دل بسمل کا تڑپنا
کچھ غور سے قاتل کا ہنر دیکھ رہے ہیں
اب تک تو جو قسمت نے دکھایا وہی دیکھا
آئندہ ہو کیا نفع و ضرر دیکھ رہے ہیں
پہلے تو سنا کرتے تھے عاشق کی مصیبت
اب آنکھ سے وہ آٹھ پہر دیکھ رہے ہیں
کیوں کفر ہے دیدار صنم حضرت واعظ
اللہ دکھاتا ہے بشر دیکھ رہے ہیں
خط غیر کا پڑھتے تھے جو ٹوکا تو وہ بولے
اخبار کا پرچہ ہے خبر دیکھ رہے ہیں
پڑھ پڑھ کے وہ دم کرتے ہیں کچھ ہاتھ پر اپنے
ہنس ہنس کے مرے زخم جگر دیکھ رہے ہیں
میں داغ ہوں مرتا ہوں ادھر دیکھیے مجھ کو
منہ پھیر کے یہ آپ کدھر دیکھ رہے ہیں

ای پیپر دی نیشن