مرشد من  

تاریخ عالم میں ایسی ہستیاں نایاب ہیں جو انسان کی سربلندی کے لیے صدائے حق، احترام آدمیت، محبت اور کامل راہنمائی کی وجہ سے صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی زندہ و جاوید ہیں- یہ عظیم روحانی ہستیاں رشد و ہدایت کا منبع ہیں جو ہر لمحہ و لحظہ انسانیت کے آقا و مولا تاجدار انبیاء حضور پاک  سے نور ہدایت حاصل کرتی ہیں ان کے قلوب عشق الہٰی اور اخلاص فی العمل کی دولت سے معمور ہیں- ان کے الفاظ انسانیت کے لیے تابندہ ستارہ ہیں اور یہ خلق خدا سے محبت کرنے والی عظیم شخصیات میں ممتاز و نمایاں مقام رکھتے ہیں، انہوں نے مردہ دلوں میں روحانی اور اخلاقی رمق دمق پیدا کی سالکین کو نور ہدایت سے مستفید کیا اور آج بھی انسانیت کیلئے رہنمائی کا ذریعہ ہیں-
 ان ہستیوں میں کوٹ مٹھن والی عظیم ہستی کا ذکر کروں گی۔  کوٹ مٹھن (راجن پور) کی چار عالم میں نیک نامی تقسیم کرنیوالی شخصیت کو خواجہ غلام فرید کے نام سے جانا پہنچانا جاتا ہے۔ آپ کو ایک حلقہ سرائیکی صوفی شاعر کی حیثیت سے جانتا ہے اور یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔
 آپ نے ’’کافی‘‘ کی صنف میں ایسی بے مثال اور بے کمال شاعری کی جو آج بھی عظیم ترین ادب کا اثاثہ کہلاتی ہے۔ آپ کی پیدائش 25 نومبر 1845ء اور وفات  24 جولائی 1901ء میں ہوئی۔ آپ کا نام خورشید عالم رکھا گیا تاہم دنیا آپ کو خواجہ غلام فریدکے نام سے جانتی ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ معلوم نہیں بابا فرید اور خواجہ فرید دو علیحدہ علیحدہ شخصیات ہیں۔ 
بابا فرید گنج شکر کا مزار پاک پتن شریف میں ہے جبکہ خواجہ غلام فرید سرائیکی بیلٹ (کوٹ مٹھن) میں اسودہ خاک ہیں۔دونوں شخصیات کے ارادت مند آزاد کشمیر‘ گلگت وبلتستان سمیت ملک بھر میں موجود ہیں۔ یہی نہیں سالانہ عرس مبارک کی تقریبات میں دنیا بھر سے محبان حاضری اور دعا کے لیے تشریف لاتے ہیں۔
 خواجہ غلام فریدکے والدین بچپن میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے۔ آپ کی عمر چار برس تھی جب والدہ دنیا سے رخصت ہوئیں اور جب آپ آٹھ برس کو پہنچے تو والد محترم کا سایہ بھی سر سے اٹھ گیا۔خواجہ غلام فرید کے بزرگوں کے ایک مرید مٹھن خان جتوئی تھے ان کی سخاوت بہت مشہور تھی۔ ان  ہی کے نام پر قصبہ کا نام کوٹ مٹھن ہوا۔ خواجہ غلام فرید نے 13 برس کی عمر میں  اپنے برادر اکبر (فخر جہاں) سے بیعت کی۔ جب آپ 27 برس کے ہوئے تو آپ کے بڑے بھائی بھی جنت مکیں ہوگئے! 
خواجہ غلام فرید بہت سخی تھے آپ کے لنگر کا روزانہ خرچہ بارہ من چاول اور آٹھ من گندم تھا۔ روزانہ ایک سو سے پانچ سو افراد اس دستر خواں سے استفادہ کرتے۔ آپ کی جاگیر کی سالانہ آمدن 35 ہزار تھی باوجود اس آمدن کے آپ نے سادہ زندگی گزاری۔ آپ سے جب دعا کے لیے درخواست کی جاتی تو آپ عشق کا رنگ چڑھنے کی خاص دعا دیتے!!
غلام فریدا دل اوتھے دئیے
جھتے اگلا قدر وی جانے
ایک مرتبہ ارادت مندوں کے پاس تشریف فرما تھے کہ اسی دوران ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی خاتون آئی اور کچھ کھانے کو پیش کیا۔ آپ نے کھاناشروع کیا تو مرید خاص نے عرض کی سرکار  آپ کا روزہ ہے، جواب دیا مجھے معلوم ہے! پوچھا کہ معلوم ہونے کے باوجود آپ کیوں یہ کھا رہے ہیں؟ وضاحت فرمائی کہ مجھے معلوم ہے کہ روزہ توڑنے کی قضاء  کیا ہے؟ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ نماز توڑنے کی قضاء کیا ہے مگر  یہ معلوم نہیں کہ دل توڑنے کی قضاء کیا ہے؟ آپ کہنا چاہتے تھے کہ اگر میں نے کھانے سے انکار کر دیا  تو اس خاتون کی دلاآزاری ہوگی۔
 اسی بات اور کیفیت کو حضرت واصف علی واصف نے  یوں بیان کیا۔ آپ فرماتے ہیں ’’عبادت کی قضاء ہے، خدمت کی نہیں‘‘ خواجہ غلام فریدکے بارے میں مشہور ہے کہ آپ کو راگ راگنیوں پر عبور تھا آپ نے ان تمام راگنیوں میں کافیاں کہی ہیں؛ نشتر غوری رقمطراز ہیں،  اگر خواجہ صاحب کے کلام پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے سنگیت کی تمام رمزوں اور لے تال کی تمام خوبیوں سے استفادہ کیا ہے۔
 اکثر کافیوں میں لفظوں کی تکرار سے ایسی ہم صوتی اور ہم آہنگی پیدا کی ہے کہ ہوا اور پانی کی لہریں اپنے نغمے بھول جائیں۔ شعر وشاعری میں کافی ایک مشکل فن ہے  جو عربی زبان میں تو ملتا ہے مگر دوسری زبانوں میں نہ ہونے  کے برابر ہے۔خواجہ فرید کا کلام ہررنگ ونسل عوام وخواص عامل وان پڑھ خواندہ وناخواندہ اور عجم وعرب میں مشہور ہے۔ آپ الفاظ کے ساحر ہیں اور حافظ جیسا سوز عشق آپ کے کلام کا خاصہ ہے۔ آپ کے کلام میں رومی سی تڑپ کوٹ کوٹ کر  بھری ہوئی ہے ‘ سعدی جیسا مشاہدہ اور اسلوب وانداز آپ کے ہر ہر شعر سے ٹپکتا ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن