بالاخر حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ آرمی چیف کو بھی طالبان حکومت سے کہنا پڑا کہ اگر وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو لگام نہیں ڈالتی ان کے مراکز کا خاتمہ نہیں کرتی تو پھر پاکستان کو خود ایسا کرنا پڑے گا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردوں کی حالیہ بڑھتی ہوئی کارروائیوں نے آرمی کی برداشت کا لیول کراس کر لیا ہے۔ القاعدہ، داعش، طالبان، ٹی ٹی پی، اس سے منسلک متعدد چھوٹے بڑے گروپوں کے بعد اب الجہاد کے نام سے دہشت گردوں نے جو کارروائیاں شروع کی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے دانڈے بھی افغانستان میں موجود ان مراکز سے ملتے ہیں جنہیں بھارت کی طرف سے بھرپور مالی امداد و تربیت ملتی ہے۔ یہ لوگ مذہب کے مقدس نام کی آڑ میں ایک مسلم ملک کو ہی اپنی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا نشانہ بنانے پر تلے نظر آتے ہیں۔ اگر اسلام اور جہاد ان کا مطمع نظر ہوتا تو بھارت سے بڑھ کر وسیع میدان اور کہاں دستیاب ہے۔ بھارت میں اس وقت مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ ان نام نہاد مجاہدین اسلام کو نظر نہیں آ رہا کیا ان کے آنکھوں پر بھارتی احسانات کی پٹی بندھی ہوئی ہے یا بھارتی پیسے نے ان کی زبانوں پر تالے ڈال دئیے ہیں۔ پاکستان میں نہیں اس وقت مسلمانوں کو سب سے زیادہ خطرہ بھارت میں ہے۔ جہاں ان کا نام و نشان ، ان کی عبادتگاہیں، ان کے گھر، کاروبار اور شناخت تک کو ختم کیا جا رہا ہے۔
حیرت کی بات ہے آج تک افغان طالبان حکومت نے بھارتی مسلمانوں کی بربادی کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ آئے روز وہاں مساجد شہید ہو رہی ہیں، گائے کے ذبح کے نام پر مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی املاک نذر آتش ہوتی ہیں۔ کیا مجال ہے جو داعش، القاعدہ، طالبان یا دوسری مذہبی جہادی تنظیموں نے اس بارے بھارت کو دھمکی دی ہو کہ خبردار ایسا نہ کرنا، ہم آ رہے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں تو ایسی کوئی صورتحال نہیں۔ اس کے باوجود صرف پاکستان کے خلاف بغض کیوں رکھا جاتا ہے۔ جہاد کا رخ بھارت کی طرف کیوں نہیں موڑا جاتا جہاں مسلمان خطرے میں ہیں۔
کیا صرف نسلی، قومی تفخر اور نام نہاد پشتونستان کی ناکام حسرتوں کا جنازہ دفنانے کے لیے پاکستان کی سرزمین کا ہی انتخاب ضروری ہے۔ گزشتہ 75 سال گواہ ہیں کہ پاکستان نے کبھی افغانستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی ورنہ ڈیونڈر لائن کا مسئلہ ہی سبق سکھانے کے لیے کافی تھا۔ آج تک پاکستان نے افغانستان کے لیے اپنے گھر اور دل کے دروازے کھلے رکھے۔ جب افغانستان پر مشکل وقت آیا اس کی بھرپور مدد کی۔افغان روس وار ہو یا افغان امریکہ وار لاکھوں افغان مہاجر مہمان بنے آج تک بنے ہوئے ہیں۔ ان میں بہت سے مذہبی بنیاد پر، سیاسی بنیاد پر، نسل اور قومیت کی بنیاد پر گمراہ کن پراپیگنڈے سے متاثر بھی ہیں اور اس کی ترویج کرنے والے گمراہ عناصر کی سرپرستی بھی کرتے ہیں اور ان کی سہولت کاری بھی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دہشت گرد کبھی سکیورٹی فورسز کو اور کبھی عام شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
وزیرستان اور بلوچستان میں ان کی شرانگیزیاں ایک بار پھر بڑھنے کے بعد اب ہماری سکیورٹی فورسز کو مزید چوکنا رہنا ہو گا۔ ڑوب، سبی، ہرنائی، کیچ، خضدار میں مذہبی جماعتیں ہو یا عسکریت پسند قوم پرست تنظیمیں ان کے سہولت کاروں، پناہ دینے والوں کے خلاف اب سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ آرمی چیف نے اس سلسلے میں گزشتہ روز ایران کا دو روزہ دورہ بھی کیا۔ امید ہے ایران میں ایسے عناصر کے خلاف وہاں کی حکومت سخت اقدامات کرے گی جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ اسی طرح پاکستانی وزیر خارجہ متعدد بار افغانستان حکومت سے ایسا ہی مطالبہ کرتے آ رہے ہیں کہ طالبان حکومت افغانستان میں قائم ایسے مراکز کو ختم کرے جو پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔ افغان حکومت نے ہمیشہ ایسے مراکز کے وجود سے انکار کیا ہے۔
ان حالات میں آرمی چیف نے بالاخر ایسا سخت بیان دیا ہے۔ اس سے پہلے ہر بیان پر افغان وزیر خارجہ ایسی وارداتوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے کر جان چھڑاتے تھے۔ مگر اب پاک آرمی کے سربراہ نے واضح کیا ہے کہ اگر یہ بزدلانہ دہشت گردی کی کارروائیاں سرحد پار سے بند نہ ہوئیں تو پاک فوج اس بات کا حق رکھتی ہے کہ وہ اپنے دفاع میں کوئی بھی جوابی قدم اٹھائے اور ان دہشت گردی کے مراکز کو تہس نہس کر دے۔ یہ کوئی خالی خولی دھمکی نہیں۔ بھارت آزاد کشمیر میں ناکام فضائی آپریشن کے بعد اس کا مزہ چکھ چکا ہے۔ تمام تر سخت دفاعی انتظامات کے باوجود پاک فوج کے شاہینوں نے بھارتی سرحد سے اندر جا کر اس کو ایسا کرارا جواب دیا کہ تادیر اس کی کسک اور تکلیف بھارت کو محسوس ہوتی رہے گی۔ افغانستان ہمارا برادر اسلامی ہمسایہ ہے وہ کم از کم ایسی نوبت نہ آنے دے۔ ہماری دوستی بھائی چارے اور محبت و اخلاص کے جواب میں ہماری مہمان نوازی کی قدر کرے اور پاکستان مخالف عناصر کو اپنے اندر رہ کر پنپنے کا موقع نہ دے ان شرپسندوں کے مراکز کو ختم کر کے ان کے شر سے پاکستان کو محفوظ رکھنے میں اپنے اسلامی برادر ملک کی مدد کرے۔ پاکستان بھی ہمیشہ سے ایسا ہی کرتا آیا ہے۔ آج بھی لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کر رہا ہے۔
٭…٭…٭