پی ڈی ایم کی حکومت کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں، آساں ہن ٹر جاناں ایں دن رہ گئے نیں تھوڑے. وزیراعظم سے لے کر تمام حکومتی ارکان اس کا برملا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم اگلے مہینے مدت پوری ہونے پر جا رہے ہیں. قبل ازیں یہ سب پورے زور وشور کے ساتھ یہ کہا کرتے تھے کہ پارلیمنٹ مدت میں ایک سال کی توسیع کر سکتی ہے اور 2023 الیکشن کا سال نہیں. الیکشن 2024 میں ہوں گے. صورتحال اب بھی کچھ ردوبدل کے ساتھ ویسی ہی ہے لیکن اب موجودہ حکومت اگلے ماہ رخصت ہو رہی ہے۔ حکمرانوں نے اپنا بوریا بستر لپیٹنا شروع کر دیا ہے۔ غالب امکان ہے کہ حکومت اپنی آئینی مدت 14 اگست سے چند دن پہلے اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابی مہم کے لیے تین ماہ کا وقت حاصل کرلے۔ اگر معینہ مدت پوری ہوتی ہے تو انتخابات دو ماہ میں کروانے پڑیں گے۔ اگر ایک دن پہلے بھی اسمبلیاں تحلیل کر دی جاتی ہیں تو انتخابات کروانے کے لیے تین ماہ کا عرصہ درکار ہو گا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومت تو جا رہی ہے لیکن الیکشن ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے نہ ہی انتخابات کی تیاریاں دکھائی دے رہی ہیں۔ نہ انتخابات کا ماحول بن پا رہا ہے۔ البتہ پہلے جو قاسم کے ابا انتخابات کروانے کے لیے بیتاب تھے اور پورے زور وشور کے ساتھ انتخابات کو یقینی بنانے کی بات کرتے تھے اب میاں شہباز شریف صاحب اور زرداری صاحب بھی وقت مقررہ پر انتخابات کو یقینی بنانے کی بات کر رہے ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں بھی خدشات لاحق ہیں کہ کہیں انتخابات میں تاخیر نہ ہو جائے۔ قیاس آرائیاں نگرانوں کے آنے سے پہلے ہی شروع ہو چکی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران حکومتیں معرض وجود میں آرہی ہیں۔ اور یہ بھی شنید ہے کہ پنجاب اور خیبر پختون خواہ کی نگران حکومتیں بھی تبدیل کر دی جائیں گی کیونکہ پہلے سے قائم دونوں حکومتیں اپنی غیرجانبداری قائم نہیں رکھ سکیں۔ خیبر پختون خواہ میں تو خود پی ڈی ایم کی جماعتیں خیبر پختون خواہ کی نگران حکومت پر اپنے تحفظات کا اظہار کر رہی ہیں کہ وہاں کی نگران حکومت کو مولانا فضل الرحمن کے رشتہ دار گورنر نے ہائی جیک کر رکھا ہے اس لیے چاروں صوبوں اور وفاق میں ٹیکنوکریٹس پر مشتمل نگران سیٹ اپ لائے جانے کی توقع ہے۔ چند ماہ قبل سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق 14 مئی کو پنجاب میں الیکشن کروائے جانے تھے لیکن حکومت نے سپریم کورٹ کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا۔ کئی قسم کے جواز گھڑے گئے جن میں اقتصادی معاملات کا رونا رویا گیا۔ پھر یہ کہا گیا کہ ادارے سیکیورٹی فراہم نہیں کر سکتے امن و امان کی صورتحال درست نہیں۔ پھر پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن کروانے کی بات کی گئی۔ حکومت یہ بھی جواز پیش کرتی رہی کہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے۔ جب تک نئی مردم شماری مکمل نہیں ہو جاتی اور اس کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں نہیں ہو جاتیں اس وقت تک الیکشن نہیں ہو سکتے۔ اب حکومت کہتی ہے کہ پرانی حلقہ بندیوں پر ہی الیکشن کروائے جائیں گے۔ اب جب پی ڈی ایم کی حکومت کو وقت مقررہ پر رخصت ہونے کا اشارہ مل چکا ہے تو پی ڈی ایم کو بھی جان کے لالے پڑ رہے ہیں کہ حالات تو ویسے کے ویسے ہی ہیں جن کو جواز بنا کر سپریم کورٹ کے احکامات کو ٹالا گیا تھا۔ اگر نگرانوں نے بھی یہ جواز سامنے رکھ کر انتخابات ملتوی کر دیے تو پھر کیا ہو گا کیونکہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے باوجود ہمارے اقتصادی معاملات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ لہذا آنے والے نگران کہہ سکتے ہیں کہ اقتصادی حالات درست ہونے تک الیکشن نہیں کروانے جا سکتے۔ خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے یہ بھی ایک جواز موجود ہے۔ اور سب سے بڑھ کر سیلاب کا خدشہ ہے جسے جواز بنایا جا سکتا ہے۔ نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کا جواز بڑا اہم ہے۔ بہر حال پاکستان میں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایکشن ملتوی کرنے کا جواز ہروقت موجود ہوتا ہے اور اس جواز کو اتنی طاقت کے ساتھ مسلط کیا جاتا ہے کہ اس سے لگتا ہے کہ قدرتی حالات ایسے ہی تھے اس لیے یہ مجبوری تھی۔ اب کہا جا رہا ہے کہ نگرانوں کی طوالت کا کوئی آئینی جواز نہیں تو بھائی خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں نگران تین ماہ کے بعد کیسے بیٹھے ہیں ذرا سوچیں۔ چند دنوں کے بعد جب پی ڈی ایم کی جماعتیں حکومت سے باہر ہوں گی، سب کا سٹیٹس ایک جیسا ہو گا تو کیا ہو گا۔ پھر یہ سب سیاستدان الیکشن کی بھیک مانگ رہے ہوں گے۔ دعا ہے کہ ایسا نہ ہو الیکشن وقت مقررہ پر ہوں اور تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی مہم چلانے کے لیے ایک جیسا ماحول فراہم ہو جائے۔ عوام جسے مینڈیٹ دیں اسے حق حکمرانی ملنا چاہیے۔
انتخابات مگر کیسے۔۔۔۔؟
Jul 18, 2023