وزیراعظم کی طفل تسلیاں اور آئی ایم ایف کی نئی شرائط

وزیراعظم میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ہمیں ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کیلئے جرأت مندانہ فیصلے کرنا ہونگے۔ انقلابی اقدامات سے ہی پاکستان میں معاشی ترقی ممکن ہو سکے گی۔ سابق دور میں لوگ اپنی تجوریاں بھرتے رہے ہیں‘ عوام نے محمد نوازشریف اور انکی ٹیم کو موقع دیا تو ملک کی تقدیر بدل دینگے۔ گزشتہ روز گورنر ہائوس لاہور میں یوتھ بزنس اینڈ ایگری کلچر لون سکیم کے تحت نوجوانوں میں چیک تقسیم کرنے کی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ پٹرولیم نرخوں میں کمی کا اعلان ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بڑھنے کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کی خاطر کیا گیا ہے حالانکہ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ انکے بقول آئی ایم ایف کے پروگرام کا یہی مثبت پہلو ہے کہ روپیہ مستحکم ہو رہا ہے ورنہ روپیہ آج کہاں ہوتا اور ملکی معیشت طلاطم کا شکار ہوجاتی۔ انہوں نے کہا‘ اگر ہم نے ہمت اور استحکام کے ساتھ آئی ایم ایف پروگرام پر عمل کرلیا تو ہماری معیشت ترقی کریگی۔ آئی ایم ایف پروگرام کوئی حلوہ یا لڈو پیڑے نہیں بلکہ ہمارے لئے چیلنجنگ پروگرام ہے۔ 
دریں اثناء گورنمنٹ کالج ویمن یونیورسٹی سیالکوٹ میں لیپ ٹاپ سکیم کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میاں شہبازشریف نے کہا کہ ہماری حکومت آئندہ ماہ اپنی مدت پوری کریگی۔ اگر نوازشریف کی قیادت میں ہمیں موقع ملا تو قوم سے وعدہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں 2011ء میں جو انقلاب شروع کیا تھا‘ اسے پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے اور ہر طالب علم کو لیپ ٹاپ دینگے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری معیشت مضبوط ہوگی تو ہمیں قرضے نہیں لینے پڑیں گے۔ انہوں نے سابق حکمران پی ٹی آئی کی پالیسیوں کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ 
بے شک پی ٹی آئی کے دور میں بھی عوام آسودہ نہیں تھے اور پی ٹی آئی قائد نے آئی ایم ایف کے پاس کشکول لے کر نہ جانے اور اسکے بجائے خودکشی کو ترجیح دینے کے دعوئوں کے باوجود اقتدار میں آکر پہلا کام آئی ایم ایف سے بیل آئوٹ پیکیج کے حصول کیلئے مذاکرات کا آغاز کرنے کا کیا اور پھر آئی ایم ایف کی جانب سے چھ ارب ڈالر کے قسط وار ادائیگی کی بنیاد پر بیل آئوٹ پیکیج کیلئے اسکی ہر ناروا شرط  پی ٹی آئی حکومت نے سر جھکا کر قبول کی۔ نتیجتاً  پی ٹی آئی دور کے آغاز میں ہی آئی ایم ایف کی شرائط کے تابع پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی‘ گیس‘ ادویات کے نرخ اور مروجہ ٹیکسوں کی شرح بڑھنے اور اسی طرح نئے براہ راست اور بالواسطہ ٹیکس لگنے سے عوام میں روزافزوں مہنگائی کو برداشت کرنے کی ہمت نہ رہی اور انہوں نے مضطرب ہو کر اسی پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت کیلئے سخت ردعمل کا اظہار شروع کر دیا جس کے نئے پاکستان اور انقلاب کے نعروں سے مرعوب ہو کر انہوں نے اپنے  اچھے مستقبل کی امیدیں وابستہ کی تھیں۔ 
یہ حقیقت ہے کہ مہنگائی کے اٹھتے سونامی ہی پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ عوامی منافرت بڑھانے کا باعث بنے اور اسی فضا میں پی ٹی آئی حکومت کی جانب سے دیوار سے لگائی گئی اپوزیشن جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر اپنی صف بندی کرنے اور حکومت کیخلاف منظم تحریک چلانے کا موقع ملا۔ انہی حالات میں اپوزیشن اتحادی پی ڈی ایم اور اس سے باہر اپوزیشن جماعتوں پیپلزپارٹی اور اے این پی کیلئے پی ٹی آئی کے اقتدار کے ساڑھے تین سال بعد ہی وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے اور ہائوس میں منظور کرانے کی راہ ہموار ہوئی جبکہ اس تحریک کے وقت اپوزیشن جماعتوں کے قائدین نے عوام کو پی ٹی آئی کے پیدا کردہ غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے سنگین مسائل سے نجات دلانے کے دعوے کئے اور کہا کہ اقتدار میں آکر وہ ملک کے اقتصادی اور مالی حالات میں سدھار لائیں گے اور سسٹم کو استحکام کی جانب گامزن کرینگے۔ 
بے شک پی ٹی آئی قائد نے اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار ہوتا دیکھ کر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر عملدرآمد کے معاملہ میں بدعہدی کی تاکہ اس کا ملبہ نئی حکومت پر آن گرے تاہم پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کی قیادتوں کو اس ممکنہ صورتحال کا مکمل ادراک تھا اس لئے انہوں نے اقتدار میں آکر ملکی معیشت کو سنبھالنے کا چیلنج قبول کیا اور اس میں ناکام رہے تو انہیں یہ ناکامی بھی خوشدلی کے ساتھ قبول کرنی چاہیے تھی اور اسی وقت نئے انتخابات کی جانب چلے جانا چاہیے تھا مگر اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج کی بحالی کیلئے پی ٹی آئی حکومت سے بھی آگے بڑھ کر اسکی ہر شرط قبول کی اور ملک میں مہنگائی کے جھکڑ چلا کر عوام کو بدحال اور عملاً زندہ درگور کر دیا۔ طرفہ تماشا یہ ہوا کہ اتحادی حکومت آئی ایم ایف کے ہاتھوں عوام کی درگت بنا کر اور عوامی منافرت پر مبنی اپنی غیرمقبولیت کے گڑھے خود ہی کھو کر بھی آئی ایم ایف کا بیل آئوٹ پیکیج بحال نہ کرا سکی اور اسکے بجائے اپنے اقتدار کے آخری ماہ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کا نیا عبوری بیل آئوٹ پیکیج لے کر ملک کی معیشت اور عوام کو اسکی کڑی شرائط کے ساتھ باندھ دیا۔ اتحادیوں کی حکومت کا آخری بجٹ بھی‘ جسے عوام کو حقیقی ریلیف دینے کا بجٹ ہونا چاہیے تھا کیونکہ اس بجٹ کی بنیاد پر ہی انہوں نے عام انتخابات کیلئے عوام کے پاس جانا تھا‘ عوام دوست بجٹ تو کیا بنتا‘ الٹا اسکے ذریعے عوام کو مہنگائی اور غربت کی مزید مار مارنے کا اہتمام کرلیا گیا۔ اس بجٹ میں ٹیکسوں کی وصولی کا جو ہدف مقرر کیا گیا ہے وہ عوام کے تن مردہ سے لباس اتار کر ہی پورا کیا جائیگا جبکہ نئے بیل آئوٹ پیکیج کی پہیلی قسط ادا کرنے کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے دوسری قسط کیلئے نئی شرائط کا طومار باندھ کر بحرانوں کے ہاتھوں عوام کو مزید زچ کرانے کا بھی اہتمام کرلیا ہے۔ 
گزشتہ روز آئی ایم ایف کی جانب سے دوسرے جائزے کیلئے جو شرائط پیش کی گئیں‘ ان پر عملدآرمد کیلئے بھی آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان سے پراپرٹی اور زرعی شعبہ پر ٹیکس لگانے کا پلان طلب کرلیا ہے۔ گویا آئی ایم ایف پہلے حکومت کے ہاتھوں عوام کو ذبح ہونے پر مطمئن ہوگا اور پھر قرض کی دوسری قسط ادا کی جائیگی۔ وزیراعظم شہبازشریف کے بقول آئی ایم ایف کے اس قرض پروگرام سے پاکستانی روپیہ مستحکم ہوا ہے جس کے معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہونگے۔ مگر آئی ایم ایف کی نئی شرائط سے عوام کی مزید جو درگت بنے گی کیا اس پر حکومتی اتحادی آئندہ انتخابات میں عوامی ردعمل کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ آئی ایم ایف کی یہی شرائط آنیوالے نگران سیٹ اپ اور پھر نئی منتخب حکومت کے گلے پڑیں گی جو ان شرائط پر عملدرآمد کیلئے لامحالہ منی بجٹ لانے پر بھی مجبور ہوگی۔ 
آئی ایم ایف کے بیل آئوٹ پیکیج سے معیشت کو کب اور کتنا استحکام ملتا ہے‘ یہ تو بعد کا معاملہ ہے‘ عوام تو ابھی سے زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اتحادی جماعتوں کو اس گھمبیر فضا میں ہی انتخابی میدان میں اترنا ہے۔ اس تناظر میں حکمران جماعتوں کی قیادتوں کو اپنے اقتدار کے آخری تین ہفتوں میں عوام کو اتنا ریلیف تو فراہم کر دینا چاہیے کہ وہ انتخابی میدان میں خوشدلی کے ساتھ ان کا استقبال کرسکیں۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...