گلوبل ویلج:مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
بینک کے باہر بل جمع کرانے والوں کی لائن لگی تھی۔ اس لائن میں سے ایک خاتون نکلی وہ بینک منیجر کے پاس گئی۔ اس نے کہا کہ وہ نہ بھکارن ہے اور نہ لاولد ہے۔ اس کے تین بیٹے ہیں، اچھی پوسٹوں پر لیکن وہ اب اس سے نہیں ملتے۔کوئی میرا ذریعہ آمدن نہیں ہے، میں محلے کے بلے اکٹھے کرکے جمع کرواتی ہوںاور فی بل بیس روپے مجھے مزدوری ملتی ہے۔ اب بینک کا کیشیئر کہتا ہے کہ ایک بل جمع کراکے دوبارہ لائن میں لگویا پھر مجھے بھی حصہ دو۔ایکسائز کے ایک ڈائریکٹر نے وسیع و عریض بنگلہ بنوایا، فرانس سے شاور ٹوٹیاں منگوا کر لگائیں، وہ شاندار بنگلے کی اپنے دوستوں کو وزٹ کروایا کرتا۔ ایک دوست چند سال بعد ان سے ملنے آیا۔ تو دیکھا کہ گیٹ پر ایک بوڑھا چارپائی پر بیٹھا ہے، سرہانہ تیل اور میل سے لتھڑا ہوا ہے۔ اس سے اپنے دوست کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا کہ اندھے ہو میں وہی ہوں۔اب میری بہوئیں مجھے گھر کے اندرداخل نہیں ہونے دیتیں۔ میں اپنے پوتوں کے سر پر ہاتھ بھی نہیں پھیر سکتا۔
اب ہمارے ہاں بھی اولڈ ہومز کا رواج چل نکلا ہے۔کچھ بدبختوں کو بیگم کے قدموں میں جنت دکھائی دیتی ہے، بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز چھوڑ آتے ہیں، کچھ تو دوبارہ ملنا بھی گوارا نہیں کرتے۔لیکن ایک بیٹا بیگم سے نظریں چرا کر کبھی کبھی باپ سے ملنے چلا جاتا۔ایک بارگیا تو باپ سے پوچھا ابا جی کوئی خدمت ہو توبتائیں سوائے گھر جانے کے۔ باپ نے کہا اس کمرے میں پنکھے تو لگے ہیں تم یہاں پر اے سی لگوا دو۔بیٹے نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے، باپ نے کہا کہ میں اپنے آرام کی بات نہیں کر رہا۔ میں نے تمہیں بڑے لاڈ اور پیار سے پالا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تمہارا بیٹا تمہیں یہاں چھوڑ کر جائے اور تمہیں کوئی تکلیف ہو۔ یہ سن کر بیٹے کی آنکھیں کھل گئیں۔وہ باپ کو گھر لے آیا اور اپنی اہلیہ سے کہا کہ ابا جی اب اسی گھر میں رہیں گے۔ آپ نے اس گھر میں رہنا ہے یا نہیں رہنا اس کا فیصلہ کر لیں۔ اس کے بعد خاتونِ خانہ نے کبھی دوسری کوئی بات نہیں کی۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ مزید اولڈ ہومز بنائے جائیں۔کیا اولادوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ والدین کو بڑی تعداد میں ان اولڈہومز میں جمع کرانے لگیں۔اب تک جتنے بھی اولڈ ہومز بن چکے ہیں ان میں سے بھی آدھے دوسرے مقاصد کے لیے استعمال میں لائے جائیں۔ جو بچیں ان میں سے صرف وہ لوگ رہیں جن کا دنیا و جہان میں کوئی نہیں۔ جن کی اولادیں کھاتی پیتی ہیں وہ والدین کو گھر لے جائیں۔ ایک قانون بنا دیا جائے کہ جو بھی اپنے والدین کو اولڈ ہومز میں چھوڑ کر جائے اس کی آدھی جائیداد اولڈ ہومز کے نام کر دی جائے۔شاید یہی ایک راستہ بگڑی ہوئی اولادوں کو راہ راست پر لا سکتا ہے۔ ایک مختصر سی میں آپ کو کہانی بھی سناتا ہوں۔ یہ ایک چینی کہانی ہے۔ بوڑھے باپ کی کھانسی سے تنگ آ کر بیٹے نے اس کا بستر برآمدے میں لگا دیا۔ باپ فوت ہو ا تو اس کی آخری رسوم سے واپسی پر بیٹے نے سوچا کہ اس کا سامان ناکارہ ہے۔ اسے باہر پھینکوا دیا جائے۔ وہ گھر میں داخل ہوا تو اس کا چھوٹا سا بیٹا پھٹے پرانے کمبل کی تہہ لگا رہا تھا اور چیزوں کو قرینے سے رکھ رہا تھا، باپ نے پوچھا کیا کر رہے ہو تو اس نے کہا، پاپا آپ بوڑھے ہوں گے تو آپ نے بھی یہیں رہنا ہوگا تو میں آپ کے لیے سامان سنبھال رہا ہوں۔یہ بھی ایک کہاوت ہے کہ ایک بیٹا اپنے باپ کو کندھے پر بٹھا کر لے جا رہا تھا تو باپ کو پتہ چل گیا کہ یہ مجھ سے جان چھڑوانا چاہتا ہے اور مجھے یہ نہر میں پھینکنا چاہتا ہے اور وہ واقعی نہر کے کنارے پر پہنچ گیا تو باپ جو کندھوں پر بیٹھا تھا اس نے کہا بیٹا مجھے تھوڑا آگے پھینکنا ،تو بیٹے نے کہا کیوں، تو باپ کا جواب تھا کہ یہاں میں نے اپنے باپ کو پھینکا تھا۔
اب ایک اور رجحان کا بھی تذکرہ کر لیتے ہیں وہ ہے خواتین کے حوالے سے۔ ٹی وی ڈراموں نے ماحول کو بالکل تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ جو گھر گھر فساد نظر آتا اس میں ان ٹی وی ڈراموں کا بھی بہت بڑا ہاتھ ہے۔
آج کل کی لبرل پروگریسو تعلیم یافتہ اور ماڈرن خواتین میں یہ تاثر اور سوچ و فلسفہ بہت تقویت اور رجحان پکڑ رہا ہے کہ بہو پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ وہ پیا گھر قدم رکھنے کے بعد اپنے خاوند کے والدین یا اس کے چھوٹے بہن بھائیوں کی نگہداشت بھی فرائض میں شامل ہو جاتی ہے۔اس بات کو مذہبی رنگ دینے کے لئیے کچھ تاریخی کتب و چند غیر مستند احادیث مبارکہ کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔
قارئین! مذہب اسلام کی ابتدائ تقریبا پندرہ سو سال پہلے ہوئی ہم نہ ہی رجعت پسند ہیں نہ ہی رجعت پسندانہ اداروں سے فارغ التحصیل ہوئے۔ہم شروع سے ہی یہ پڑھتے چلے آئے ہیں کہ ہر انسان کے عموما تین والدین ہوتے ہیں ایک وہ کہ جنہوں آپ کو پیدا کیا دوسرا آپ کے ان لازئ سسرالی والدین اور تیسرا آپ کو تعلیم دینے والے ، اور ان تینوں کے حقوق تقریبا ملتے جلتے ہیں لیکن میرے مشاہدے اور علم میں یہ بات آئی ہے کہ کچھ سماجی حلقوں میں خواتین کے حقوق کے نام پر ہماری بہو و بیٹیوں کو ورغلایا جا رہا ہے اور انہیں یہ باور کروایا جا رہا ہے کہ والدین اپنے بچے کو پیدا کر کے پال پوس کر بچے کی ماں پر کئی ہزار راتوں کی نیند قربان کر کے سردیوں کی راتوں کو بچہ بار بار کپڑے گیلے کر دیتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے ماں کو وہ صبر اور پیار دیا ہے کہ کوئی دوسری عورت اس کی جگہ نہیں لے سکتی ، اس دنیا میں جینے کے تجربات اور مشاہدات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جب مرد کسی بیماری کا شکار ہو جائے یا بیوی خدانخواستہ اپاہج ہو جائے تو بہت ہی کم جوڑے ایسے ملیں گے کہ جو مذہب و اخلاقیات ، ثقافتی اقدار کا بھرم رکھتے ہوں ؟ والدین بچوں کی تعلیم و تربیت پر لاکھوں کروڑوں روپیہ لگا کر اسے برسر روزگار دیکھنے کے لئیے اکثر قرضہ تک لیتے ہیں اور یہ سب محض اس لئے کہ کیا ایک اجنبی گھرانے یا دوسرے خانوادے سے بیاہ کر لانے والی بہو گھر میں قدم جماتے ہی اپنے سسرالی والدین کو بوجھ سمجھ کر اپنے خاوند کو اس حد تک بے بس کر دے کہ وہ بیٹا آخر تنگ آ کر حقوق والدین کو فراموش کر بیٹھے؟ جب کہ ہمارے مذہب اسلام اور نے آخرالزمان حضرت محمد? نے اپنی مستند احادیث اور اور خود اللہ رب العزت نے القرآن میں یہ جابجا فرمایا کہ میں اپنے حقوق تو شاید معاف کر دوں مگر حقوق العباد اور حقوق والدین معاف نہیں کروں گا۔ میرا ایسا ذہن رکھنے والی خواتین بہو?ں بیٹیوں سے عرض ہے کہ جیسا آپ اپنے حقوق سے چھٹکارا پانا ہی اپنا حق سمجھ رہی ہیں بالکل اسی طرح آپ کے بھائی بھی شادی کے بعد آپ کی بھابھی گھر لے آئے ہیں اگر آپ کی بھابھی بھی آپ کے بھائی سے یہ ڈیمانڈ کرے جو آپ اپنے خاوند سے کر رہی ہیں تو دونوں اطراف کے بیچارے بوڑھے والدین کدھر جائیں؟ ہمارے اسلامی معاشرے میں تو ’’ سینئر ہومز‘‘ کی گنجائش بالکل نہیں بلکہ اس صورت میں تو بالکل نہیں جب آپ کا بیٹا بیٹی زندہ یا وارث اور بزرگ حیات ہوں ، میرے اپنے خیال میں معاشرے کی تشکیل میں ماں کا ناقابل تبدیل کردار ہوتا ہے کیوں کہ آج کی بیٹی کل کی بہو اور پھر ساس بنے گی، لہٰذا اپنے آج کے چند لمحات کو پریکٹیکلی خوشگوار بنانے کے لئیے خدارا اپنے آنے والے مستقبل کو دا? پر مت لگائیے ، کیوں کہ آپ آج وہی کاٹیں گے جو گزرے کل آپ نے اپنے ہاتھوں بویا تھا۔ والدین کو بوجھ اور غیر ضروری سمجھ کر قطع تعلق کرنے والے یاد رکھیں کہ آپ کی آج کی جوانی سدا قائم رہنے والی نہیں بلکہ ایک دو عشرے بعد یہی وقت آپ پر بھی آنے والا ہے !