کالم:لفظوں کا پیرہن تحریر:غلام شبیر عاصم
میرے جگری یار بلکہ یار بہادر میجر صاحب،ریٹائرڈ میجر ہیں،ادب سے بہت شغف رکھتے اور موسیقی کے بڑے دل دادہ ہیں،ان کے پاس بیٹھ جائیں تو وہ گفتگو کرتے ہوئے شعر و ادب،موسیقی اور حْسن کے موضوع سے باہر نہیں نکلتے،حالانکہ انہیں عسکریت سے متعلق باتیں کرنا اور اپنی جرات و بہادری کے گولے داغنا چاہئیں،بٹالین،یونٹ،
بریگیڈ،گنز،ٹینک اور توپوں کی باتیں کرنی چاہئیں۔مگر ایسی غلطی انہوں نے کبھی نہیں کی وہ جب بھی گپ شپ کے ماحول میں گفتگو کرتے ہیں تو کوئی غیر فوجی شخص اور منجے ہوئے لکھاری یا جہانِ راگ و رنگ اور آواز و ساز کے کسی جہان کے عالم پناہ لگتے ہیں۔ایک دن چائے،گفتگو اور اخبار بینی کا دور چل رہا تھا۔میجر صاحب چند شاعرات اور گلو کاراوں کا تذکرہ اس دلچسپی اور لگن سے کررہے تھے کہ میرے تصورات میں حسن کی پریاں،باجے،طبلے، دمامے، گٹار،بینجو،ہارمونیم گھوم رہے تھے۔گویا میجر صاحب موسیقی کے سمندر میں تیر رہے تھے اور میں محویت میں ڈوبتا چلا جارہا تھا۔میجر صاحب نے باتوں باتوں میں ایک خوبرو،دراز قد،مرمریں جسم،چشمِ آہْو جیسی آنکھیں رکھنے والی حسینہ شاعرہ کا تذکرہ شروع کردیا۔ ماشائ اللہ وہ بہت خوبصورت ہے،میجر صاحب کہہ رہے تھے کہ وہ واقعی"مْونہہ م?تھے"لگتی ہے۔میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مْونہہ م?تھے لگتی ہے تو پھر اللہ کرے وہ کسی کے"م?تھے"نہ لگتی ہو۔جتنی وہ خوبصورت ہے اس پر تو کئی نظمیں غزلیں کہی جاسکتی ہیں۔میں نے کہا میجر صاحب جتنی وہ وجودی لحاظ سے خوبصورت ہے اتنی خوبصورت شاعرہ نہیں ہے۔دراصل لوگ اسے سْننے نہیں دیکھنے آتے ہیں۔وہ شاعرہ اس زعم میں ہے کہ وہ بہت معروف اور پختہ شاعرہ ہے،اس کے معروف اور خوبصورت ہونے میں کوئی شک نہیں۔مگر بحیثیت شاعرہ وہ صرف معروف ہے فنی اعتبار سے پختہ نہیں ہے۔اللہ پاک نے اسے عورت بنایا ہے اور اسے حسن کی کثرت دولت عطا کرکے اسے مزید حساس کردیا ہے،مگر وہ اپنے نسوانی پن کو اپنے شوقِ پذیرائی میں بہت پیچھے پاوں تلے روند کر اب بہت آگے نکل آئی ہے۔چادر اور چار دیواری کے تقدس کو اس نے حبس اور گھٹن کے موسم میں بھاری شال کی طرح اتار پرے پھینکا ہے۔وہ عورت ہے مگر گھر سے بھاگے ہوئے کسی سر پھرے لڑکے کی طرح نگر نگر کی ادبی محفلوں میں آوارہ مزاج پھرتی ہے۔اس کے عشقیہ اور فحش آمیز رموز و کنایات کے شمشیر و ناوک سے قتل ہونے والوں کا مقدمہ کس تھانہ میں درج ہوگا۔وہ حسِین ہے مگر اسے یوں مردوں کے جْھرمٹ میں دیکھ کر مجھے تو بڑی گِھن آتی ہے۔میجر صاحب،وہ عورت ہے مگر اسے عورت کہنے کو جی نہیں چاہتا۔لگتا ہے وہ ابلیس کے لئیکام کررہی ہے۔اب تک وہ ہزاروں لوگوں کو اپنا گرویدہ اور ہم عقیدہ کر چکی ہے۔پتہ نہیں میرے اندر ایک صوفی اور میجر صاحب کے اندر فنون لطیفہ سے دلچسپی رکھنے والا غیر فوجی انسان کہاں سے آن وارد ہوا۔اگر اس شاعرہ کی کوئی شاعری سْنیں تو"شجرِ ممنوعہ"کو چھونے کے انکار میں اس کا اقرار کہیں پنہاں محسوس ہوتا ہے۔وہ محاوروں،تشبیہات، استعاروں،اشاروں کنایوں اور اندازِ بیاں گویا پیاسوں کی پیاس میں مزید شدت پیدا کردیتا ہے۔میجر صاحب کے نظریہ کا تو مجھے پتہ نہیں،البتہ میرا بس چلے تو ایسی شاعرات پر سرِمحفل جلوہ افروز ہونے پر سخت پابندی لگادوں۔ایسے ادب کے تخلیق پاتے ہی تنقید کی بے نیام شمشیر سے ایسے"بے ادب" کا سر تن سے جدا کردوں جو معاشرہ میں"بے ادبی" اور اخلاق حسنہ کی گراوٹ کا سبب بننے لگا ہے۔خواہش ہے کہ ادب معاشرے کی دیواریں ٹیڑھی اٹھانے کے بجائے درست اور صحیح تعمیر کرسکے۔ادب سے لب و رخسار اور گیسوئے دلفریب کا حوالہ ختم کرنے کی بات کرنا حوالات میں جانے والی بات ہے۔مگرایسی روش کا خاتمہ میری نظر میں بہت ضروری ہے جو حضرت اقبال کے شاہینوں کے پر کاٹتی اور انہیں نحیف و ناتواں بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔ادب میں یہ لب و رخسار کی روش کسی اور کی پسند تو ہوسکتی ہے،مگر میرے نذدیک یہ روش خواہشات نفسانی کے سمندر میں طغیانی تو لا سکتی ہے مگر مثبت،انقلابی اور تعمیری روش پر ذہنوں کی پختگی کے لئے کارگر ثابت نہیں ہوسکتی۔
میجر صاحب اور ان کے مزاج کے ہزاروں لاکھوں لوگ ہوں گے جو اس طرح کی شاعرات کو سننے کے بجائے دیکھنے کے لئے ایڑیوں کے بل کھڑے ہونے کو تیار ہوں گے،مگر یہ سچ ہے کہ ایسی شاعرات بجائے معاشرہ کی تعمیر کرنے کے شرم و حیا کا گلا کاٹنے کا کام سرانجام دیتی ہیں۔لہٰذہ انہیں چادر چار دیواری میں ہی رکھا جائے
آج جو ففتھ جنریشن وار چھڑ چکی ہے اسے اپنی فتح میں بدلنے کے لئے ہمیں خود کو اسلامی اقدار کی ڈھال اور چال سے کام لینا ہوگا۔