اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز لانے کے فیصلے کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل جانے کا اعلان کیا ہے۔ذرائع کے مطابق ایڈ ہاک ججز کی تقرری کے معاملے پر قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور اپوزیشن لیڈر سینیٹ سینیٹر شبلی فراز نے جوڈیشل کمیشن کو خط لکھنے کا فیصلہ کیا ہے ، خط میں جوڈیشل کمیشن سے ایڈہاک ججز کی تقرری پر مخالفت سے باقاعدہ آگاہ کیاجائےگا۔اسلام آباد میں پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کی مشترکہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی 70 فیصد پاکستانیوں کی ترجمان جماعت ہے. اس پر پابندی حکومت کے ختم ہونے کا کاؤنٹ ڈاؤن ہوگا۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں ایڈہاک ججز کو لگایا جا رہا ہے، ہم سمجھتے ہیں یہ اقدامات بدنیتی پرمبنی ہیں، 4 ایڈہاک ججز کو ایک ساتھ لانے کے فیصلے کی مذمت کرتے ہیں. ایڈہاک ججز کی تعیناتی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیج رہے ہیں، ججز اس معاملے کو متنازع نہ بنائیں۔بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ 4 ایڈہاک ججز کو ایک ساتھ لانا آزاد عدلیہ کیلئے مضر ہے، یہ وقت ایسے فیصلے لینے کا نہیں، یہ وقت سپریم کورٹ کے اہم فیصلے کو سننے کا ہے. ہم الیکشن کمیشن سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں یہ آخری وقت ہے فوری ہمارا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے کہا کہ ہماری اتحادی جماعت کے ساتھیوں نے علامتی مارچ کیا ہے، نیب نے بشریٰ بی بی کو جھوٹے کیسز میں پھر گرفتار کیا. چیف جسٹس سے گزارش ہے ایڈہاک ججز ہمارے کیسز نہ سنیں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مقصد ہے ہم خیال ججز اپنے ساتھ لگائیں جس کی ہم سخت مذمت کرتے ہیں۔عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی باتیں ہو رہی ہیں، کسی کا باپ بھی پی ٹی آئی پر پابندی نہیں لگا سکتا.ہم لوگ سب سے بڑی سیاسی جماعت ہیں، پی ٹی آئی کو 3 کروڑ لوگوں نے ووٹ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جمشید دستی کے گھر ریڈ ہوا.شہریار آفریدی کے گھر رات پولیس آئی. ہم ان تمام اقدامات کی مذمت کرتے ہیں. آئین میں لکھا ہے کسی پارلیمنٹیرین کو گرفتار کرنے سے پہلے سپیکر کو خط لکھا جاتا ہے. اس وقت پاکستان میں لاقانونیت ہے۔عمر ایوب کا کہنا تھا کہ ہمیں 4 جولائی کو عمران خان سے ملنے سے روکا گیا، ہمارا اسلام آباد میں بھی جلسہ ہوگا. صوابی کے مقام پر بھی کریں گے، ہمارے پورے پاکستان میں بھرپور جلسے ہوں گے. شہبازشریف فارم 47 کے وزیراعظم، مریم نواز فارم 47 کی وزیراعلیٰ ہیں۔
سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکمران ٹولہ تلملا اٹھا ہے، پارٹی پر پابندی لگانے والا اقدام انتہائی بھونڈا ہے، ہم اس ملک کے ساتھ مزید کھلواڑ کرنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔انہوں نے کہا کہ عوام اس لئے نہیں کہ وہ صرف ٹیکس دیں، آئندہ ماہ میں مزید خرابی ہوگی. یہ پاکستانی عوام کے جینے کو ناممکن بنا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف اس نظام کیخلاف سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی ہوگی. چیف الیکشن کمشنر کو اپنے چاروں ممبران کے ساتھ استعفیٰ دینا چاہیے. ثابت ہوگیا الیکشن کمیشن ایک پارٹی بن گیا ہے.ہمارے ایم این ایز کو اغوا کیا جا رہا ہے اس کی سخت مذمت کرتے ہیں۔شبلی فراز نے مزید کہا کہ بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی پر جھوٹے مقدمات درج کئے گئے ہیں. عوام اب جاگ چکے ہیں انہوں نے سب دیکھ لیا ہے. حکمران اب بھی ہوش کے ناخن لیں، آئین و قانون پر عملداری کریں۔
رہنما تحریک انصاف زرتاج گل نے کہا کہ پی ٹی آئی پر پابندی دیوانے کا خواب ہے، دیوانے صرف گلیوں میں ناچ سکتے ہیں کچھ کر نہیں سکتے۔ان کا کہنا تھا کہ پورے پاکستان کی ایک آواز ہے بانی پی ٹی آئی تھا، ہے اور رہے گا، آپ ہم سے جنگ کرنے کے بجائے بانی پی ٹی آئی عمران خان سے معافی مانگ لیں، افاقہ ہوگا۔
سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کر رہے ہیں، ملک کو سرزمین بے آئین بنا دیا گیا ہے، یہ سب کچھ بندوق کی نوک پر کر رہے ہیں، ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کیخلاف، اگر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی، ہم جنگ کیلئے تیار ہیں لیکن چاہتے ہیں انارکی پیدا نہ ہو۔
اسد قیصر کا کہنا تھا کہ ہمارا ون پوائنٹ ایجنڈا ہے ملک کو آئین کے مطابق چلاؤ، نوازشریف بھاگنے والے ہیں. نوازشریف کو راہ فرار تب ملے گا جب آپ عوام میں آ کر معافی مانگیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے پٹرول کی قیمتیں بڑھائی ہیں. یہ ٹیکسز کسی کے بس کی بات نہیں کہ ادا کر سکے، ہم عوام کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے. عمران خان سب کچھ حقیقی آزادی کیلئے برداشت کر رہے ہیں، ہم پاکستان کو بچانا چاہتے ہیں.ایک دو دن میں اتحادیوں کی میٹنگ کر رہے ہیں۔
قبل ازیں سنی اتحاد کونسل اور پی ٹی آئی رہنماؤں کا مشاورتی اجلاس ہوا. جس میں سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد کا جائزہ لیا گیا. اجلاس میں چار نکات پر گفتگو اور تمام ارکان پارلیمنٹ کی رائے لی گئی۔