کافی دنوں سے ’’مینڈیٹ ‘‘ کی کسی چیخ و پکار کی کوئی آواز سنائی اور دکھائی نہیں دے رہی۔ اللہ نہ کرے وہ کہیں ایک دوسرے کے مینڈیٹ کے احترام آپریشن میں اناللہ تو نہیں ہو گیا؟ یا پھر اس مسکین کو بھی کسی منافع بخش خدمت گروپ نے یرغمال بنا لیا ہو۔ جب تک عدلیہ آزاد نہیں ہوتی تھی اور پنجاب میں گورنر کی شاہی کے چرچے ہوتے تھے دن رات‘ صبح شام کے ہر لمحہ میں ایک ہی شور قیامت برپا ہوتا تھا ’’ہمارے مینڈیٹ کی توہین کی جا رہی ہے۔ ہم جن کے مینڈیٹ کا دل و جان سے احترام کر رہے ہیں وہ ہمارے مینڈیٹ کا کچھ خیال ہی نہیں کر رہے۔‘‘ ہر طرف سے ’’ہائے اللہ مارے گئے‘ لڑ گئے‘‘ کی دل ہلا دینے والی آوازیں آیا کرتی تھیں اُدھر عدلیہ آزاد ہوئی مینڈیٹ کو گورنر ہائوس اور گورنر سے آزادی ملی اور ساتھ ہی وہ بالکل ہی صمً بکمً ہو گیا۔ آصف علی زرداری کے مینڈیٹ سے ’’مینڈیٹ کو مینڈیٹ ملے کر کے لمبے ہاتھ‘‘ ہو گیا کیا بدلا ہے اس مینڈیٹ نے خدمت کے اشتہاروں میں تصویروں کے سوا؟ ؎
بہت شور سنتے تھے عوام کے مینڈیٹ کا
جو پرکھا تو وہ دورِ وردی شاہ ہی نکلا
مشرف گیا زرداری آیا اپنے ساتھ میئیں لایا؟ نہیں اور بھی آیا گیا ہے۔ شوکت عزیز کی جگہ سید یوسف رضا گیلانی بھی تو لایا گیا ہے۔ معلوم نہیں چودھری برادران کی خدمت کی صحت پر اس تبدیلی اور مینڈیٹ کے کیا ثرات مرتب ہوئے ہیں ملک کے مینڈیٹ دینے والے عوام کی صحت تو پہلے سے بھی بہت ہی زیادہ قابل خدمت دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ بھی ہے کہ کچھ اہلِ فتویٰ خدمت اسلام و عوام کے ثواب دارین سے محروم ہو گئے ہیں وہ جو پنجابی محاورہ ہے کہ ’’آیا سیال تے مرے غریب‘ آیا ہنال تے مرے غریب‘‘ اس خادمان کے آنے جانے کے کھیل کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیشہ غریب ہی مرتے رہتے ہیں۔ آیا مشرف تو مرے غریب آیا مینڈیٹ تو مرے غریب۔ امیروں کو نہ موسموں کی تبدیلی سے کوئی دکھ تکلیف پہنچتے ہیں نہ باوردی اور بے وردی آمریت کی تبدیلی ان کی امارت پر کسی طرح اثر انداز ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی اس مینڈیٹ کے دینے والے ملک کے عوام سے کہے کہ ’’ہورچوپو‘‘ تو اس سے بے بی جمہوریت کی دل آزاری‘ جسے اب لوگ باگ دل زرداری کہنے لگے ہیں‘ ہو جائے گی لیکن اس مینڈیٹ کا ہوا کیا ہے عوام کے دئیے ہوئے کا؟ ان کے خلوص کا ان کی امیدوں اور آسوں کا؟ ہوگئی ہیں ہو جائیں گی ان مینڈیٹ دینے والے عوام کی آس اور امیدیں خدمت کے اشتہاروں میں تصویروں کی تبدیلی سے پوری ؟ ایک صاحب جنہوں نے اہل خدمت کو بہت ہی قریب سے اور بہت ہی عجیب و غریب حالتوں میں دیکھا اور پرکھا ہوا ہے وہ ہر پندرہ بیس دن بعد ایک ہی بات پوچھتے ہیں ’’کیوں ضائع کر رہے ہو تم اپنا وقت‘ کاغذ اور سیاہی؟ تمہیں تکلیف کیا ہے؟‘‘ چند روز پہلے اس تفتیش کے بعد ایک اپنی ملاقات کا حال سنایا اور ایک سوال بتایا جو ان سے آکسفورڈ کے ہماری تاریخ اور شعر و ادب کے ماہر نے اس ملاقات میں ان سے پوچھا تھا کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ محمد علی جناحؒ اور اقبالؒ تمہاری قوم میں کیوں پیدا ہو گئے تھے؟ تم نے تو ثابت کر دیا ہے کہ تم ان کے نام پر بھی ایک دھبہ ہو۔‘‘ہماری تاریخ اور شعر و ادب کے ماہر کے مطالعہ اور غور و فکر کی وسعت و گہرائی کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نے جو ایک اور نام دیا تھا ان کے سامنے وہ نسیم حجازی کا تھا جس کی تحریروں نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا تھا ترقی ہوئی پسندی اور روشن آرا خیالی والے سارے ٹکربوچ ایک طرف اور اکیلا نسیم حجازی ایک طرف دکھائی دیتا ہے۔ ڈھول ڈھمکا اور بات ہے جب تک کمیونسٹ روس باقی تھا اس شہر کی شعر و ادب کی مجلسوں اور محفلوں میں ’’ایشیاء سرخ ہے‘‘ کا ڈھمکا چھایا ہوتا تھا۔ اُدھر اس نے دم توڑا اور وہی ڈھول ڈھمکے والے فنکار اس امریکہ کی روشن آرا خیالی کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گئے جس کو وہ انسانوں اور انسانیت کا دشمن‘ دنیا کا سب سے بڑا سامراجی قرار دیا کرتے تھے۔ اللہ معاف کرے ہم تو معلوم نہیں کس کس کے نام پر شرمناک دھبہ بنتے جا رہے ہیں بقول اس ماہر تاریخ و ادب کے اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے نام پر ہم دھبہ ہیں اپنے حال کے حوالے سے ترقی ہوئی پسندی والے اپنے ہی ماضی پر دھبہ ہیں بہت ہی چمکتا ہوا روشن آرا خیال دھبہ۔ 18 فروری 2007ء کے عوام کے دئیے مینڈیٹ پر این آر او کے زادگان اور فدائیان دھبہ دکھائی دینے لگے ہیں رہا دین حق تو اس کی عظمت پر دھبہ کوئی نئی بات نہیں۔ ایک بہت ہی نامی گرامی جنس کے مولانا سوات اور مالا کنڈ آپریشن کے خلاف خطبہ دے چکے تو پوچھا گیا۔ حضرت آپ تو حکمران اتحاد میں ہوتے ہیں؟ فرمایا ’’ہم بااقتدار تو ہیں بااختیار نہیں۔‘‘ پاس سے کسی نے سوال اٹھایا ’’حضرت! آپ بے اختیار اقتدار کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘ خاموشی کا مطلب تھا ہم اپنے ماضی پر دھبہ لگا لیں ایک ہی طرف کے ہو کر؎
بلھیا دین دی اپنی ہٹی پا کے
مسلماناں نوں مار مرا کے
عمرے کر تے حج نوں جا
بلھیا لٹیریاں دا اِک جتھا بنا کے
شرم حیا والی لوئی لاہ کے
حکومت کر تے وعظ فرما
بہت شور سنتے تھے عوام کے مینڈیٹ کا
جو پرکھا تو وہ دورِ وردی شاہ ہی نکلا
مشرف گیا زرداری آیا اپنے ساتھ میئیں لایا؟ نہیں اور بھی آیا گیا ہے۔ شوکت عزیز کی جگہ سید یوسف رضا گیلانی بھی تو لایا گیا ہے۔ معلوم نہیں چودھری برادران کی خدمت کی صحت پر اس تبدیلی اور مینڈیٹ کے کیا ثرات مرتب ہوئے ہیں ملک کے مینڈیٹ دینے والے عوام کی صحت تو پہلے سے بھی بہت ہی زیادہ قابل خدمت دکھائی دینے لگی ہے۔ یہ بھی ہے کہ کچھ اہلِ فتویٰ خدمت اسلام و عوام کے ثواب دارین سے محروم ہو گئے ہیں وہ جو پنجابی محاورہ ہے کہ ’’آیا سیال تے مرے غریب‘ آیا ہنال تے مرے غریب‘‘ اس خادمان کے آنے جانے کے کھیل کے حوالے سے دیکھا جائے تو ہمیشہ غریب ہی مرتے رہتے ہیں۔ آیا مشرف تو مرے غریب آیا مینڈیٹ تو مرے غریب۔ امیروں کو نہ موسموں کی تبدیلی سے کوئی دکھ تکلیف پہنچتے ہیں نہ باوردی اور بے وردی آمریت کی تبدیلی ان کی امارت پر کسی طرح اثر انداز ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی اس مینڈیٹ کے دینے والے ملک کے عوام سے کہے کہ ’’ہورچوپو‘‘ تو اس سے بے بی جمہوریت کی دل آزاری‘ جسے اب لوگ باگ دل زرداری کہنے لگے ہیں‘ ہو جائے گی لیکن اس مینڈیٹ کا ہوا کیا ہے عوام کے دئیے ہوئے کا؟ ان کے خلوص کا ان کی امیدوں اور آسوں کا؟ ہوگئی ہیں ہو جائیں گی ان مینڈیٹ دینے والے عوام کی آس اور امیدیں خدمت کے اشتہاروں میں تصویروں کی تبدیلی سے پوری ؟ ایک صاحب جنہوں نے اہل خدمت کو بہت ہی قریب سے اور بہت ہی عجیب و غریب حالتوں میں دیکھا اور پرکھا ہوا ہے وہ ہر پندرہ بیس دن بعد ایک ہی بات پوچھتے ہیں ’’کیوں ضائع کر رہے ہو تم اپنا وقت‘ کاغذ اور سیاہی؟ تمہیں تکلیف کیا ہے؟‘‘ چند روز پہلے اس تفتیش کے بعد ایک اپنی ملاقات کا حال سنایا اور ایک سوال بتایا جو ان سے آکسفورڈ کے ہماری تاریخ اور شعر و ادب کے ماہر نے اس ملاقات میں ان سے پوچھا تھا کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ محمد علی جناحؒ اور اقبالؒ تمہاری قوم میں کیوں پیدا ہو گئے تھے؟ تم نے تو ثابت کر دیا ہے کہ تم ان کے نام پر بھی ایک دھبہ ہو۔‘‘ہماری تاریخ اور شعر و ادب کے ماہر کے مطالعہ اور غور و فکر کی وسعت و گہرائی کا اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس نے جو ایک اور نام دیا تھا ان کے سامنے وہ نسیم حجازی کا تھا جس کی تحریروں نے پوری ایک نسل کو متاثر کیا تھا ترقی ہوئی پسندی اور روشن آرا خیالی والے سارے ٹکربوچ ایک طرف اور اکیلا نسیم حجازی ایک طرف دکھائی دیتا ہے۔ ڈھول ڈھمکا اور بات ہے جب تک کمیونسٹ روس باقی تھا اس شہر کی شعر و ادب کی مجلسوں اور محفلوں میں ’’ایشیاء سرخ ہے‘‘ کا ڈھمکا چھایا ہوتا تھا۔ اُدھر اس نے دم توڑا اور وہی ڈھول ڈھمکے والے فنکار اس امریکہ کی روشن آرا خیالی کے قدموں میں سجدہ ریز ہو گئے جس کو وہ انسانوں اور انسانیت کا دشمن‘ دنیا کا سب سے بڑا سامراجی قرار دیا کرتے تھے۔ اللہ معاف کرے ہم تو معلوم نہیں کس کس کے نام پر شرمناک دھبہ بنتے جا رہے ہیں بقول اس ماہر تاریخ و ادب کے اقبالؒ اور قائداعظمؒ کے نام پر ہم دھبہ ہیں اپنے حال کے حوالے سے ترقی ہوئی پسندی والے اپنے ہی ماضی پر دھبہ ہیں بہت ہی چمکتا ہوا روشن آرا خیال دھبہ۔ 18 فروری 2007ء کے عوام کے دئیے مینڈیٹ پر این آر او کے زادگان اور فدائیان دھبہ دکھائی دینے لگے ہیں رہا دین حق تو اس کی عظمت پر دھبہ کوئی نئی بات نہیں۔ ایک بہت ہی نامی گرامی جنس کے مولانا سوات اور مالا کنڈ آپریشن کے خلاف خطبہ دے چکے تو پوچھا گیا۔ حضرت آپ تو حکمران اتحاد میں ہوتے ہیں؟ فرمایا ’’ہم بااقتدار تو ہیں بااختیار نہیں۔‘‘ پاس سے کسی نے سوال اٹھایا ’’حضرت! آپ بے اختیار اقتدار کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے؟‘‘ خاموشی کا مطلب تھا ہم اپنے ماضی پر دھبہ لگا لیں ایک ہی طرف کے ہو کر؎
بلھیا دین دی اپنی ہٹی پا کے
مسلماناں نوں مار مرا کے
عمرے کر تے حج نوں جا
بلھیا لٹیریاں دا اِک جتھا بنا کے
شرم حیا والی لوئی لاہ کے
حکومت کر تے وعظ فرما