چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا تین رکنی بینچ اسپیکر رولنگ کے خلاف درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل عرفان قادرنے اسپیکرفہمیدہ مرزا کا بیان عدالت میں جمع کرایا۔ وزیراعظم کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسپیکررولنگ کے خلاف دائردرخواستیں قابل سماعت نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ درخواست گزارکے مطابق یوسف رضا گیلانی سزا پانے کے بعد نااہل ہوگئے ہیں اور وہ اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی نہیں کرسکتے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ اٹھارہ کروڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ ایک سزایافتہ شخص کررہا ہے۔ درخواست گزاروں کا اعتراض ہے کہ سزا یافتہ شخص بجٹ دےرہا ہےاور کابینہ اجلاس کی سربراہی کررہا ہے۔ اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کسی پارٹی کا نہیں بلکہ عوام اورملک کا نمائندہ ہوتا ہے۔ اعتزازاحسن نے جواب میں کہا کہ عدالت حکومتی معاملات میں آئے گی تویہ عدالت کی جانب سے اختیارات سے تجاوزہوگا۔اس دوران اٹارنی جنرل نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سات رکنی بینچ بھی اٹھارہ کروڑ عوام کی مرضی کے مخالف فیصلہ دے گا تویہ بھی تجاوزہی ہوگا تاہم چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کوباری پربولنے اورسیٹ پربیٹھنے کی ہدایت کی۔ چیف جسٹس نے اعتزاز احسن کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آج کوئی وکیل بھی مشرف کیس، نصرت بھٹو کیس، ذوالفقاربھٹوکیس اوردوسو کیس کا حوالہ نہیں دیتا لیکن آپ ان مقدمات کے حوالے دے رہے ہیں جن کومتنازعہ سمجھا جاتاہے۔اعتزازاحسن نے کہا کہ اگرعدالتی ستم ظریفیوں کی بات کریں گے توبات کہیں اورنکل جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے اس ملک میں صرف آئین وقانون کی بالادستی اورجمہوریت کی بقا کومدنظررکھنا ہے،اب ہمیں پرانے راستے چھوڑنا پڑیں گے۔آپ کومتنازعہ مقدمات پرانحصارنہیں کرنا چاہیے۔ اعتزازاحسن نے کہا کہ میں نے کبھی آئین وقانون کواپنی سیاسی وابستگیوں کے تابع نہیں کیا، اگرایسا ہوتا تودوہزار سات میں وکلا تحریک میں آپ کے ساتھ نہ ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپیل اس لیے نہیں کی کہ فیصلہ وزیراعظم کونااہل نہیں کرتا۔