ملتان کی بہادر بیٹی .... عفت .... خدمت کے جذبے سے سرشار تھی

 سلیم ناز
گزشتہ روز بولا ن میڈیکل کالج کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعہ میں عفت فقیر مریضوں کی دیکھ بھال کرتے کرتے خود اگلے جہاں پہنچ گئیں۔ اسے کیا خبر تھی کہ آج یہ اس کی زندگی کا آخری دن ہے۔ وہ صبح تیار ہو کر گھر سے نکلی ہوگی۔ تو اس کے ذہن میں ہی نہیں ہوگا کہ آج وہ آخری ڈیوٹی پر جاری ہے۔ میڈیکل کالج کی زخمی طالبات جونہی ایمرجنسی وارڈ میںلائی گئیں تو مرحومہ ان کو طبی امداد پہنچانے کےلئے فوراً متحرک ہوگئیں۔ ابھی وہ زخمی طالبہ کے قریب پہنچی ہی تھیں۔ کہ اچانک دھماکہ ہوگیا اور ڈپٹی کمشنر سمیت نرس عفت فقیر بھی لقمہ اجل ہوگئیں۔ جب اس کی اطلاع بدھلہ سنت ملتان میں مقیم والدین تک پہنچی تو گھر میںکہرام مچ گیا۔ عفت کی والدہ بیگم مجید ہ چودھری کا تعلق سیاست سے ہے وہ 13ءکے الیکشن میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر امیدوار بھی تھیں۔ عفت کی بدقستمی ہے کہ 6 ماہ قبل ان کی شادی کو ئٹہ کے ڈاکٹر عبدالمتین کے ساتھ ہوئی تھی جو تھائی لینڈ میں ایف آر سی ایس کرنے گئے ہوئے ہیں۔ آٹھ بہن بھائیوں میں عفت چوتھے نمبر پر تھیں۔ بچپن سے ہی وہ بہت ذہین تھیں اور خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار تھیں ۔ انسانیت کی خدمت مرحومہ کی زندگی کا مشن تھا۔
عفت فقیر نے بدھلہ سنت گرلز ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ نشتر ہسپتال میں ایل ایچ وی کا کورس کرنے کے بعد کوئٹہ میں مقیم اپنے رشتہ داروں کے پاس چلی گئیں اور بولان میڈیکل ہسپتال سے نرسنگ کا کورس مکمل کرنے کے بعد وہیں ملازمت اختیار کر لی۔ 6 ماہ قبل تھائی لینڈ میں متقیم ڈاکٹر عبدالمتین سے ان کی شادی ہوئی ۔ عفت نے اپنے شوہر کے پاس جانے کےلئے پاسپورٹ بھی بنوالیا۔ چند روز بعد ان کی روانگی تھی۔کیونکہ مرحومہ کے شوہر اپنے بیمار والد کی تیمارداری کےلئے کراچی پہنچ چکے تھے کہ موت کا بلاوا آگیا اور عفت کی تھائی لینڈ جانے کی حسرت دل ہی میں رہ گئی۔
مرحومہ کی میت کو بذریعہ ایمبولینس ملتان لائی گئی تو محلے دار، رشتہ دار اور دیگر احباب کے علاوہ مرحومہ کی سہیلیاں بھی شہادت کا رتبہ پانے والی ملتان کی بہادر بیٹی کا آخری دیدار کرنے کےلئے موجود تھیں۔ ہر آنکھ اشکبار تھی۔ عفت کے بہن بھائیوں اور والدہ ، والد کی حالت قابل رحم تھی۔ اشکوں کا نہ رکنے والا سیلاب تھا جو ہر آنکھ سے رواں دواں تھا۔ عفت کی والدہ روتے ہوئے بتا رہی تھیں میری بیٹی بڑی ذمہ دار اور خوش اخلاق تھی ۔ وہ گھر میں اپنے تمام بہن بھائیوں کا خیال رکھتی۔ میری اور اپنے والد کی خدمت میں کوئی کسر نہ چھوڑتی ۔ کیا خبر تھی دہشت گرد میری بیٹی کو مجھ سے چھین لیں گے۔ ابھی تو اس کے ہاتھوں کی مہندی کا رنگ ہی نہیں اترا تھا۔ ابھی تو اپنے شوہر کے پاس جانے کی تیاروں میں تھی کہ اگلے جہاں جاسدھاریں۔
مرحومہ کے بہن بھائی رو و کر اپنی بہن کو پکار رہے تھے مگر وہ کہاں اٹھنے والی تھی۔ جانے والے کو بھی کبھی روک سکا ہے۔ عفت کے چہرے پر چمکنے والا نور اس بات کا ثبوت تھا کہ عفت کو جتنی بھی زندگی ملی اس میں وہ کامیاب کردا ر ادا کر کے جا رہی ہے۔
مرحومہ کے شوہر ڈاکٹر عبدالمتین بڑے غمزدہ تھے۔ انہوںنے کہا مجھے اپنی بیوی پر فخر ہے کہ اس نے انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے شہادت کا رتبہ پایا لیکن سوال یہ ہے کہ کب تک بے گناہ لوگ دہشت گردوں کا نشانہ بنتے رہیں گے۔
عفت فقیر کے بھائی وسیم سہیل کا کہنا تھا اعلیٰ حکومتی نمائندوں کی بے حسی کی بدترین مثال ہے کہ ہماری بہن جو کہ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران حق کی خاطر شہید ہوگئی۔ اسے ایئر ایمبولینس کی بجائے بذریعہ روڈ ایمبولینس بھیجا یا۔ عفت فقیر کے دوسرے بھائی نذیر احمد نے کہا کہ وہ میری بہن نہیں میر ا بھائی تھا۔ جس نے بھائیوں سے بڑھ کر کام کیا۔ عفت فقیر کے والد فقیر محمد نے کہا دہشت گردی کا واقعہ قابل مذمت ہے۔ میری بیٹی کی قر بانی رائیگاں نہیں جائے گی۔ دہشت گرد عناصر کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ شہیدہ کی نماز جنازہ مرکزی عید گاہ بدھلہ سنت میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ صاحبزادہ محمد عاقل چشتی نے پڑھائی۔ نماز جنازہ میں کسی بھی اعلیٰ حکومتی شخصیات سمیت کسی سرکاری نمائندے نہ ہی حکومت بلوچستان کے کسی اعلیٰ عہدیدار نے شرکت کی۔ نماز جنازہ میں سابق ایم این اے سید علی موسیٰ گیلانی، چودھری احمد گجر، چودھری ارشاد ارائیں، واصف مظہر راں، چودھری عبدالستار، ایوب خان، چودھری اقبال، عبدالحمد نمبردار، اسلم، خوشی محمد، سلطان، سلمان بٹ، جاوید اقبال، وسیم احمد، دلبر حسین، ذیشان خلیل، ملک داو¿د ، انتظار حسین، شاہد اقبال، چودھری ابوبکر، رانا ذوالفقار ، الیاس چشتی، عبدالقیوم، ناصر احمد، ظفر اقبال ، چودھری حبیب احمد، چودھری جاوید اقبال، شیخ ارشد کے علاوہ کثیر تعداد میں اہل علاقہ نے شرکت کی۔ مرحومہ کی روح کے ایصال ثواب کےلئے قل خوانی میں بھی لوگوں کی کثیر تعداد میں شریک ہوئی۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...