اے قائد تیرے دیس کا کیا حال سناﺅں!

جون کی شدید گرمی اور بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ میں جسم و جاں جل رہے تھے۔اس دوران ابر کرم نے موسم کو حسین بنا دیا ۔جسم اور روح نے یک گونہ سکون اور راحت محسوس کی۔ایسے میں ایک خبر جانِ ناتواں پر بجلی بن کے گری کہ زیارت میں قائد اعظم کی ریذیڈنسی کو دہشتگردوں نے دھماکوں سے اڑا دیا ۔قائد اعظم نے تنکا تنکا جوڑ کر آشیاں بنایا جو آدھا ہم نے اپنے ہاتھوں سے جلا دیا۔اب باقی بچے نشیمن پر ہم خود ہی بجلیاں گرا رہے ہیں۔قائد وادی زیارت کی اس عمارت میں صرف دو ما ہ دس دن قیام پزیر رہے۔قائد کے مختصر قیام سے اسے قائد اعظم ریذیڈنسی کے نام سے منسوب کیا گیا۔پتھراور لکڑی کی بنی اس عمارت میںقوم کے باپ نے قدم رکھا تو یہ تاریخی حیثیت اختیار کر گئی اور قومی ورثہ قرار پائی۔ قائداعظم ریذیڈنسی کی خوبصورت اور پروقار عمارت 1892ءکے اوائل میں لکڑی سے تعمیر کی گئی۔ اس دور میں برطانوی حکومت کے اعلیٰ افسران وادی زیارت کے دورے کے دوران اپنی رہائش کے لئے استعمال کیا کرتے تھے، بلوچستان کے پولیٹیکل ایجنٹ بھی گرمیوں میں یہیں سے سرکاری امور انجام دیتے۔ اس عمارت کے بیرونی حصے میں چاروں طرف لکڑی کے ستون ہیں ۔ عمارت کے اندرونی حصے میں بھی لکڑی کا ا ستعمال بہت خوبصورتی سے کیا گیا ۔ آٹھ کمروں پر مشتمل اس رہائشگاہ میں دونوںطرف 28 دروازے ہیں۔ اس رہائشگاہ کی تاریخی اہمیت میں قیام پاکستان کے بعد 1948ءمیں اس وقت اضافہ ہوا جب یکم جولائی کو بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ناساز ی طبع کے باعث یہاں تشریف لائے۔ قائداعظم کے انتقال کے بعد اس رہائشگاہ کو قائداعظم ریذیڈنسی کے نام سے قومی ورثہ قرار دیتے ہوئے عجائب گھر میں تبدیل کر دیا گیا۔ جو اب دہشتگردوں کی راکٹ باری سے جل کر خاکستر ہوگئی ہے۔ٹی وی پر جلتے ہوئے اس تاریخ ساز عمارت کے درو دیوار دیکھ کر موسم کی خنکی بھی شعلہ بار ہوگئی جسم کے ساتھ ساتھ روح تک اس ریذیڈنسی میں لگی آگ کی تپش محسوس ہو رہی تھی۔لگتا تھا صنوبر کے جنگلات میں گھری عمارت قائد کے نوادرات کو جلتے دیکھ کر آنسو بہارہی ہے ۔پاکستان میں دہشتگردی کی وارداتیں تو روز کا معمول ہے،ہر واردات پر دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن ریذیڈنسی کے جل کر راکھ ہونے سے روح کو ایک روگ لگ گیا۔اس عمارت سے اٹھتے ہوئے شعلوں کی حدت نے شائد قائد کی روح کو بھی بے چین کردیاہے۔جس قائد نے برصغیر کے آٹھ کروڑ مسلمانوں کو آزادی کی نعمت سے سرفراز کیا آج ان مسلمانوں اوران کی نسلوں کی تعداد چالیس کروڑ کے لگ بھگ ہے ۔یہ سب مل کر بھی قائد کے پاکستان کی حفاطت نہ کرسکے ۔بیس کروڑ تو آج بھی قائد کے جلے ہوئے نشیمن کے محفوظ حصے میںآزادی کی نعمت سے سرفراز ہیںجو قائد کی ریذیڈنسی کی حفاظت نہ کرسکے ۔قائد نے اپنی شعلے اگلتی ریذیڈنسی کو عرش معلی سے دیکھا ہوگا تو آپ کو پورا پاکستان جلتاہوا نظر آیا ہوگا۔ہم نے قائد کی جائے پیدائش کراچی کی روشنیوں کو تاریکیوں کے حوالے کردیا۔فاٹا مسلسل سلگ رہا ہے ،بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک انگارے برسا رہی ہے۔ ملک کے ہر حصے میں دہشتگردوں نے بارود کی بو پھیلا رکھی ہے۔  قائد نے شعلوں لپٹی ریذیڈنسی کے ساتھ سو اسو کلومیٹر کے فاصلے پر کوئٹہ میں معصوم طالبات کی شعلے اگلتی بس بھی دیکھی ہوگی۔کوئٹہ ہی میں بولان میڈیکل کمپلکس میں لشکر جھنگوی کے دہشتگردوں نے بم دھماکوں اور فائرنگ سے انسانوں کے جسموں کے اڑتے ہوئے اعضا اور خون کی بہتی ندیاں بھی دیکھی ہونگی۔ویمن یونیورسٹی کی جلنے والی طالبات اور بولان میڈیکل کمپلس میں مرنے والے ڈاکٹروں ،نرسوں اور افسروںو اہلکاروں میں ہر قومیت کے لوگ شامل ہیں۔لہو لہوکوئٹہ کے ہر گھر میںبلا امتیاز قومیت اور مسلک و مذہب کے صف ماتم بچھی رہی ،آسماں روتا اور زمیں آنسو بہاتی رہی۔پاکستان دشمن قوتوںکو انسانیت سے کوئی غرض ہے نہ انسانوں سے۔غیر ملکی قوتیں بھی اپنے ایجنڈے کی مقامی لوگوں کی مدد کے بغیر تکمیل نہیں کرسکتیں۔ان انسانیت کے دشمنوں کی سرکوبی کی ضرورت ہیں۔نواز شریف کے وزیر اطلاعات اور وزیر داخلہ کہتے ہیں کہ ہتھیارپھینکنے والوں سے مذاکرات اور ہتھیار اٹھانے والوں کے خلاف جنگ کریں گے۔قائد کی روح کو تڑپانے ،ملک کے کونے کونے میں بارودبرسانے والے کسی رورعایت کے حقدار نہیں۔وارداتوں کے بعد وہ آسمان پر چلے جاتے ہیں نہ زمین کی تہہ میں، وہ اسی زمین پر رہتے اور چلتے پھرتے ہیں ۔پاکستان توڑنے کی سازش کرنے والوں کو قانون نافذ کرنیوالے ادارے پکڑ کر عبرت کا نشان بنا دیں۔یہ ان کی اولادوں کے بھی خیر خواہ نہیں،اس کے سوا ان کا کوئی دوسر انجام نہیں ہونا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن