میاں صاحب اب آپ ہی پہل کریں

میں نہ تو ماہرِ معاشیات ہوں اور نہ ہی بجٹ کے بارے میں کوئی تجربہ ہے۔ برطانوی شہری ہونے کے باوجود میری اپنی پہلی پہچان ہے ہی پاکستان! --- پاکستان ہے تو ہم ہیں، سرزمین پاکستان کیوں چھوڑی؟ یہ اس بنا پر چھوڑی کہ بدقسمتی سے نہ ہمیں یہاں روٹی ملی، نہ کپڑا اور نہ مکان، ہاں ہم نے اس نعرے روٹی، کپڑا اور مکان کی بھرپور حمایت کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت کو پاکستان میں انقلابی تبدیلی کا سمبل قرار دیا۔ ”بھٹوز“ نے اپنے طور پر پاکستانی معاشرے میں تبدیلیاں اور انقلابی اصلاحات لانے کی بھرپور کوششیں ضرور کیں لیکن پھر بھی درمیانہ اور نچلا طبقہ روٹی، کپڑا اور مکان کے علاوہ بنیادی ضروری سہولیات سے ہمیشہ محروم رہا۔ دولت کی تقسیم بھی غلط ہوئی، چند خاندانوں نے قومی دولت پر قبضہ جما لیا۔ مختصر یہ کہ آج تک بلکہ اس وقت تک سرزمین پاکستان چند مخصوص خاندانوں کی جاگیر بنی ہوئی ہے۔ موروثیت کے گہرے سائے قومی انتخابات 2013ءمیں بھی چھائے رہے، ان ہی گہرے سایوں میں وجود میں آنے والی قومی اور صوبائی اسمبلیاں قوم کو کیا عوامی بجٹ دینے کی پوزیشن میں ہیں؟ خود وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید یہ کہہ رہے ہیں کہ قومی خزانہ خالی پڑا ہے، آئندہ ماہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے بھی حکومت کے خزانے میں رقم موجود نہیں ہے۔ قومی خزانہ کون لوٹ کر لے جاتے ہیں؟ قومی خزانے میں خیانت کرنے والے دوبارہ اقتدار میں کیسے آ جاتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں کہ جن کا جواب پوری قوم کو اب ملنا چاہئے۔ بجلی کا بحران پورے ملک کی صنعتوں کو لے ڈوبا ہے۔ کارخانے پیداواری صلاحیت سے محروم ہیں، محنت کشوں کی اکثریت بیکار ہو چکی ہے قومی معیشت مکمل طور پر تباہ ہو کر رہ گئی ہے، خودکشیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی سرمایہ کار اپنا تمام سرمایہ سمیٹ کر برطانیہ، امریکہ، دوبئی، سنگاپور، بنگلہ دیش اور ملائیشیا کا رُخ کر رہے ہیں اِن حالات میں قومی معیشت کس طرح پھل پھول سکتی ہے؟۔ غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان کی موجودہ بحرانی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہاں سرمایہ کاری کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اصل حقائق پوری قوم کے سامنے ہیں۔ صدر کے علاوہ پاکستان کے بیورو کریٹس، جرنیلوں، سیاستدانوں اور عوامی نمائندوں نے جو رقم غیر ملکی بنکوں میں محفوظ کر رکھی ہے یہ حقیقت بھی اب عیاں ہو چکی ہے۔ بیرون ملک بسنے والے لاکھوں تارکین وطن اپنی دھرتی پر سرمایہ کاری کیلئے بے چین ہیں لیکن بدقسمتی سے جب وہ غیر ملکی بنکوں میں پاکستان کے قومی نمائندوں، جرنیلوں، سیاستدانوں اور بیورو کریٹس کی دولت کی موجودگی کو دیکھتے ہیں تو سرمایہ کاری کے اپنے پروگرام منسوخ کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کو دوبارہ زندہ کرنے کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے علاوہ اپنے سرمایہ کاروں اور صنعتکاروں کو بھی واپس پاکستان لانا ہو گا، تارکین وطن پاکستانی تو پہلے ہی زرمبادلہ بھجوا رہے ہیں۔ جب قومی خزانہ ہی خالی ہے تو پھر قوم کو سبز باغ دکھا کر مزید پریشان نہ کیا جائے۔ قرضوں کی منصوبہ بندی، ماہانہ وظائف اور چھوٹے گھروں کی تعمیر جیسے پروگرام کس طرح چل سکتے ہیں؟ قوم کے سامنے اصل حقائق رکھیں اور قوم کو اعتماد میں لیں، قومی دولت لوٹنے والوں کا احتساب کریں، اِن عناصر کو قومی مجرم قرار دیکر بے نقاب کریں۔ استحقاق اور استثنیٰ کی ڈھال کو اب رکاوٹ نہ بننے دیا جائے۔ سیاسی مقاصد اور اقتدار کو مضبوط بنانے کے تمام ہتھکنڈے اب ختم ہونے چاہئیں۔ وسائل کے قحط کے اس دور میں قومی دولت کو دیانتدارانہ طریقہ سے خرچ کیا جائے۔ قومی معیشت مضبوط ہو گی تو ملک میں خوشحالی کا دور دورہ ہو گا اور اس کا ثمر پوری قوم کو ملے گا۔ المیہ اس وقت یہ ہے کہ ملک کا ہر ادارہ نیچے سے لیکر اوپر تک کرپشن کی لپیٹ میں ہے۔ ملک کا انکم ٹیکس، ایکسائز، واپڈا اور کسٹم غرض کہ ہر عوامی ادارہ اس وقت بدنظمی کا شکار ہو کر اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ ٹیکس کی وصولی کا کوئی خاطر خواہ نظام ہے ہی نہیں اگر ہے بھی تو صرف اور صرف غریبوں کیلئے، مراعات یافتہ طبقہ جن کی دولت کی کوئی حد ہی نہیں مکمل طور پر ٹیکس سے آزاد ہیں۔ قومی نمائندے اور قومی رہنما جو کہ اب قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں عوام کی نمائندگی کر رہے ہیں قوم کو صدقِ دل سے بتا دیں کہ بیرون ملک ان کی دولت موجود ہے اور وہ قوم کا درد محسوس کرتے ہوئے اور پاکستان کی تباہ حال معیشت کو بحال کرنے کیلئے اپنی تمام تر دولت واپس پاکستان لا رہے ہیں اس قومی جہاد میں پہل کرنے والوں میں میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری شامل ہوں دیکھتے ہیں کس طرح باقی قومی نمائندے اور صنعتکار اپنی دولت اور اثاثے پاکستان لانے سے انکاری ہوتے ہیں! اس وقت قوم اور اس کی نوجوان نسل اپنی قومی قیادت کو پکار رہی ہے۔ قدم بڑھائیے قوم ایک وقت کی روٹی کھا کر بھی آپ کا ساتھ دے گی لیکن اپنی اپنی دولت اس دھرتی پر واپس لے آئیں۔ قوم کو صرف سستی تعلیم، صحت کی سہولتیں، روزگار اور امن و امان کا ماحول چاہئے یہ قوم نہ تو لگژری گاڑیاں مانگتی ہے اور نہ ہی لاکھوں میں تنخواہیں، بس عزت و احترام کی زندگی جس میں قوم کی نوجوان بیٹیوں کی شادیاں ہو سکیں اور گھروں کے ایک بار پھر باورچی خانے آباد ہو سکیں بس یہ ہے وہ قومی قرض جو کہ قومی نمائندوں اور رہنماﺅں پر اس قوم کا ہے اس قومی فریضے کی ادائیگی میں قوم کے نمائندوں اور قومی رہنماﺅں کو مل کر قوم کا ساتھ دینا چاہئے۔ 

ای پیپر دی نیشن