پولیس کی مدد کے بغیر جرم نہیں کیا جا سکتا‘ رپورٹوں سے کچھ نہیں بنے گا‘ لاپتہ شخص چاہئے : سپریم کورٹ

Jun 18, 2013

اسلام آباد (آن لائن) سپریم کورٹ نے مری سے لاپتہ شخص ادریس عباسی کی بازیابی کے لئے راولپنڈی پولیس کو گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد تک کی مہلت دے دی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا ہے کہ پولیس کی مدد کے بغیر کوئی جرم نہیں کیا جا سکتا۔ پولیس چاہے تو وہ کام بھی کردے جو دوسروں کے لئے ناممکن کا درجہ رکھتے ہیں۔خالی پولیس رپورٹوں سے کچھ نہیں بنے گا۔ ہمیں لاپتہ شخص چاہیے۔ وہ چاہے آسمان و زمین کے درمیان کہیں بھی موجود ہے یا کسی بھی حساس ادارے کی تحویل میں ہے عدالت میں پیش کریں۔ اتنے ٹھوس ثبوت کے باوجود لاپتہ شخص کا بازیاب نہ ہونا پولیس کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے؟ اگر کوئی رکاوٹ یا مشکلات پیدا کررہا ہے تو اس کے بارے میں عدالت کو آگاہ کیا جائے۔ جسٹس خلجی عارف حسین کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی ۔اس دوران ایس پی صدر وحید خٹک اور لاپتہ شخص کے والد عارف عباسی عدالت میں پیش ہوئے ۔اس دوران عدالت میں پولیس نے رپورٹ پیش کی ۔اس پر جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ خالی رپورٹ دے رہے ہیں ادریس عباسی کہاں ہیں؟ پولیس نے بتایا کہ حافظ طاہر اور شاہد سے کوئی کچھ نہیں مل سکا ۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ شواہد کریانہ کی دکانوں پر نہیں ملتے کام کرنا پڑے گا تبھی کچھ ہاتھ میں آئے گا۔ ابھی تک بطور پولیس افسر کے انہوں نے کام بھی شروع نہیں کیا ہے۔ انہوں نے ایس پی سے پوچھاکہ آپ بتائیں کہ آپ کے خلاف کیا کارروائی کی جائے اس پر ایس پی نے کہا کہ بہت سے لوگوں سے تحقیقات کی ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ اس کام میں کون رکاوٹ بن رہا ہے کون مشکلات پیدا کررہا ہے۔ جسٹس اعجاز نے کہا کہ آپ اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکے ہیں آپ چاہیں تو بہت کچھ ہو سکتا ہے ۔ایک شخص جو غائب ہے اس کی بازیابی سپریم کورٹ کے فرائض میں شامل ہے۔ ایس پی نے کہا کہ میری لغت میں ناکامی نہیں لکھی ہوئی ہے ۔جسٹس اعجاز نے کہا کہ وہ زمین و آسمان کے درمیان کہیں تو موجود ہے اسے لیکر آئیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کو اس حوالے سے کچھ شواہد بھی نہ مل سکیں۔ ایک شخص جس کو ایجنسی لے گئی یا غائب کر دیا گیا ان کے شواہد ضرور ہوتے ہیں اس شخص تک پہنچیں جو جرم کے پیچھے ہے۔ اس افسر سے پتہ کریں جو 9 سال قبل حساس ادارے میں تعینات تھا ہر جرم کی بنیاد کچھ نہ کچھ ضرور ہوتی ہے اس کا پتہ چلا لیں تو بہت سا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ 

مزیدخبریں