اس بات میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ آزادی کے بعد پاکستان کی مختلف حکومتوں نے دو سپر طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین کے مابین تعلقات استوار کرنے میں عدم توازن کا ثبوت دیا جس کے نتیجے میں وطن عزیز کو مختلف شعبوں میں بے پناہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ افغان جنگ کے دوران سوویت یونین شکست و ریخت کا خود ہی شکار ہوکر سمٹ کر صرف ’’روس‘‘ ہی بن کر رہ گیا‘ تاہم اس سے وطن عزیز کو افغان معاملات میں بے جا مداخلت کا نہ صرف کوئی فائدہ نہ ہوا بلکہ ہمیشہ کیلئے اپنے اس اسلامی پڑوسی ملک کے حکمران دھڑوںسے دشمنی ہی پال سکا۔ آزادی کے فوراً بعد ہم نے ماضی کے سوویت یونین سے بلاوجہ کشیدگی مول لی جس کے نتیجے میں اسے ہمارے ازلی دشمن پڑوسی ملک بھارت سے فوجی‘ سیاسی‘ سفارتی‘ اقتصادی‘ تجارتی اور دیگر شعبوں میں تعلقات کو قریب تر بنانے میں مدد ملی۔ دونوں ممالک میں اس واقعہ سے پیدا شدہ تلخ ماحول کو بہتر بنانے میں کئی عشرے لگ گئے اور ہمارے اپنے ہی کرتوتوں سے وطن عزیز کے دو ٹکڑے ہو گئے جس کی منصوبہ بندی میں کسی حد تک بھارت کے علاوہ روس کا ہاتھ رہا۔ ہماری ناقص خارجہ پالیسی کا رخ تبدیل کرنے میں دونوں سپر طاقتوں کیساتھ تعلقات میں توازن واپس لانے میں ہمیں بے پناہ مشکلات اور بحرانوں کا سامنا کرنا پڑا جس کا پڑوسی ملک بھارت سے جی بھر کر فائدہ اٹھایا۔ کچھ عرصے سے ہماری حکومتوں کو شدت سے یہ احساس ہونے لگا کہ روس کیساتھ فوجی‘ سیاسی‘ اقتصادی اور تجارتی روابط کو ازسرنو بحال کرنے ہی میں عالمی براداری میں ہماری حیثیت اور ساکھ بحال ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں تازہ ترین مثبت اقدام روس سے اسلحہ کی خریداری کا آغاز کرنا ہے اور اسکے علاوہ ملکی دفاع اور قومی سلامتی کے تحفظ خصوصاً دہشت گردی کے خاتمے کے مقاصد کے حصول میں تعاون کے حصول کی کوششیں کامیابی کی جانب جاتی نظر آتی ہیں۔ دونوں حکومتوں کے مابین دہشت گردی کی روک تھام کی حکمت عملی میں اشتراک پر اتفاق رائے گزشتہ کئی ماہ کے دوران مذاکرات مختلف سطحوں پر ہوتے رہے‘ لیکن اشتراک عمل پر ٹھوس عملدرآمد پر فیصلے کیلئے ماسکو میں اگلے ہفتے بات چیت ہوگی۔ مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیراعظم کے قومی سلامتی‘ خارجہ امور کے انچارج مشیر سرتاج عزیز کرینگے اور ملکی دفاع کیلئے تقاضوں سے ہم آہنگ ہتھیاروں اور طیاروں خصوصاً ایم آر 35- قسم کے جنگی ہیلی کاپٹروں کی خریداری کو آخری شکل دینگے۔ ان ہیلی کاپٹروں کی فروخت پر رضامندی کے اظہار سے متعلق گزشتہ دنوں اسلام آباد میں تعینات روسی سفیر سمیت متعدد دیگر اعلیٰ عہدیدار بھی اعلان کر چکے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ ڈیڑھ سال پہلے بھی پاک روس تعلقات کو سنجیدہ بنیادوں پر استوار کرکے اور ماضی کی تخلیاں اور کشیدگی کا ماحول ختم کرنے کے بارے میں مثبت کوششیں شروع ہوئی تھیں‘ بلکہ صدر پیوٹن کی اسلام آباد آمد کے امکانات کا سنجیدگی سے تذکرہ ہوا تھا‘ دورۂ پاکستان کا معاملہ التواء میں پڑ گیا۔ ہمارے سیاسی‘ اقتصادی‘ سفارتی اور دیگراہم شعبوں میں سرگرم عمل اور اپنے ذاتی مفادات کے محافظ ایسے اہلکار بھی موجود ہیں جنہیں روس کیساتھ خدا واسطے کا بیر ہے اور وہ ذاتی مقاصد کی تکمیل کی خاطر وطن عزیز کے قومی مقاصد کو عموماً پس پشت ڈال کر واحد سپر پاور امریکہ ہی کے پلڑے میں حمایت ڈالنے کے خواہاں ہیں اور روس کی جانب سے کسی بھی نیک خواہشات کے اظہار کا دبے الفاظ میں مضحکہ اُڑاتے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں جب روس سے دوریاں رکھنے والی اسٹیبلشمنٹ اپنے مذموم عزائم میں خود کو کامیاب و کامران سمجھتی تھی تو اس ماحول میں بھی روسی حکومت نے پاکستانی معیشت کو مستحکم بنادوں پر کھڑا کرنے کیلئے بعض ایسے منصوبے بنائے جن کے مثبت اثرات آج بھی قائم ہیں۔ اس دور میں جرنیلی ڈکٹیٹر ایوب خان کی کابینہ میں ذوالفقار علی بھٹو جیسی باشعور اور محب وطن شخصیت موجود تھی جس نے دورِآمریت کی خرابیوں اور ناکامیوں کو نظرانداز کرکے قومی معیشت کی تعمیر و ترقی کی خاطر روس کے ساتھ پہلے سے خراب روابط کو اپنی جاندار خارجہ پالیسی کے ذریعے کچھ بہتر بنانے کی کوشش کی جو خاصی حد تک کامیاب ثابت ہوئی اور جسکے نتیجے میں روس پاکستان میں سٹیل ملز قائم کرنے پر رضامند ہو گیا۔ اور دوسرے یہ کہ پاکستان میں تیل سمیت متعدد معدنی وسائل کیلئے کھدائی کا منصوبہ بھی اسی ملک نے بنایا جس کیلئے بھٹو مرحوم ہی نے ابتدا کی‘ تاہم بعد کی حکومتوں کی کچھ حماقتوں کے باعث ان منصوبوں کو قابل رشک نہ بنایا جا سکا۔ توقع ہے کہ اگلے ہفتے ہونے والے ماسکو مذاکرات کامیاب ہونگے۔