’’اس عہد کے سلطان سے کو ئی بھول ہوئی ہے‘‘
ساغر صدیقی کا یہ شعر پاکستان کے کشیدہ سیاسی حالات کی خوب عکاسی کر رہا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر خارجہ اور موجودہ مشیر خارجہ سرتاج عزیز اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف نے اکتوبر 1998 میں اس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت کو ہٹا کر غلطی نہیں blunder کیا تھا۔پر میرا خیال ہے کہ ایسے ہی blunder اب بھی ہو رہے ہیں، اب یہ دانستہ ہیں یا پھر ماضی کی روش البتہ اس پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ایک بلنڈر تو پرویز مشرف کے معاملے پر اور دوسرا تو سمجھ سے بالاتر، میرا مطلب ایک میڈیا ہائوس کے معاملے پر جس طرح اسے ہینڈل کیا گیا وہ بھی بلنڈر کے زمرے میں ہی آتا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر میاں صاحب کی ایک statement دیکھی جس میں انہوں نے کہا کہ ہر ایک نے ما ضی میں غلطیا ں کی۔بالکل درست کہا ، پر میا ں صاحب سے کسی نے ماضی کی غلطیوں کا نہیں پوچھا، اس وقت تو ماضی سے سیکھ کر آگے بڑھنے کی بات کی جارہی ہے، مگر بہت سے ناقدین کی رائے ہے کہ میاں صا حب نے ماضی سے کچھ نہیں سیکھا بلکہ میںتو یہ کہوں گی ،کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرانے کے موڑ پر ہے۔پرویز مشرف پر ہر آئینی اور سیاسی ماہر نے بہت کچھ لکھ دیا ہے پر مجھ جیسی ناچیز کی رائے میں تو یہ سمجھ سے بالاتر ہے، اگر یہ آئین اور قانون کی حکمرانی کے لئے ہے اگر یہ جمہوریت پر شب خون مارنے والوں کا راستہ روکنے کے لئے ہے تو پھر اس کو 2007 کی ایمرجنسی سے نہیں 1999 سے شروع کیجئے اور قوم کو نہ صرف بلکہ قومی نمائندوں کو بھی اعتماد میں لیجئے اور پھر بات ہے قانون اور آئین کی بالادستی کی۔یہ ہے جمہوری رویہ اور اگر رویہ ڈکٹیٹر والا رکھیں گے تو سبق پڑھائیں اور جمہوریت کا تو پھر کو ئی آئی جے آئی لے آ ئے گا، اور یہ روایات آگے لے جائے گا۔ اور اگر قانون کی حکمرانی ماضی سے ہی ہے تو پھر آئی جے آئی سے لے کر این آر او تک سب کا احتساب کیجئے۔ اگر اس کو ذاتی رنجش اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ بناناہے تو پھر یہ شوق بہت مہنگا پڑے گا۔ حکومت نے جب یہ وعدہ کر ہی لیا تھا کہ پرویز مشرف کو باہر جانے دیا جائے گا تو ماضی کی طرح وعدہ خلافی کرکے اپنے پائوں پر کلہاڑی کیوں ماری گئی، اب ایک بار پھر مشرف کے وکیل سرگرم ہیں، اس بار تو سندھ ہا ئیکورٹ نے نا م ای سی ایل سے نکالنے کا مشروط فیصلہ بھی دے دیا ہے ۔ اور اس با ر پرویز مشرف نے درخواست بھی لکھ ہے دی کہ وہ اپنی بیمار ماں کی عیادت کیلئے جانا چاہتے ہیں،کیا حکومت پرویز مشرف کو بیمار ماں سے ملنے جانے دے گی، جبکہ پرویز مشرف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف نے 2006 ء میں اپنی جلاوطنی کے دوران میرے کسی قریبی دوست کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا تھا کہ وہ اپنے بیمار بیٹے کے ساتھ لندن جانا چاہتے ہیں، جس پر میں نے انہیں اجازت دی۔ اب پرویز مشرف جانا چاہتے ہیں تو کیا نواز شریف صاحب اجازت دیں گے۔پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالے جانے اور حکومت کے سندھ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنے پر معتبر تجزیہ کار حسن عسکری نے بہت ہی قیمتی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو اپیل میں نہیں جانا چاہئے تھا اور پرویز مشرف کو اب بھی جانے دینا چاہئے اس سے سیاست میں بڑھتی ہو ئی تپش میں کمی ہو سکتی ہے اور حالات میں sustainablity آ سکتی ہے۔میاں صاحب نہ صرف سیاست میں وسیع تجربہ رکھتے ہیں بلکہ وزارت عظمی، سٹپلشمنٹ تھیوری، جلاوطنی، انٹرنیشنل کنسپریسی، جنگوں اور اندرونی سیاسی اتار چڑھائو سب سے بخوبی واقف ہیں، چاہے ماضی میں کئی غلطیاں ہوئی ہوں، مگر ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہی دانشمندی اور کامیابی کی سیڑھی ہے۔