پاکستان کے بجٹ 2014-15ءمیں میاں نواز شرےف وزیر اعظم پاکستان کی ذاتی دلچسپی سے لیپہ ٹنل کی تعمیر کے لئے 7 ارب روپے کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے۔ میاں نواز شرےف اور میاں شہباز شرےف نے آزاد کشمیر میں 2011ءمیں ہونے والے انتخابات کی مہم میں ہیلی کاپٹر پر وادی لیپہ کا دورہ کیا تھا۔ میاں برادران کشمیری ہونے کے ناطے کشمیر کا سفر کرنے میں خوشی وارحت محسوس کرتے رہے ہیں تاہم ابھی دونوں بھائیوں کو مقبوضہ کشمیر کا سفر اختیار کرنے کا موقع نہیں ملا ہے۔ البتہ ہمارے محترم مجید نظامی صاحب 1946ءمیں لاہور سے جموں اور پھر کشمیر گئے تھے۔ 9میل لمبی اور ڈیڑھ میل چوڑی اس چٹانوں، نوکیلے پتھروں سے بھری لیپہ کے درمیان سے چغتاں کے برفانی پہاڑوں، جنگلوں سے نکلنے والے چاندی جسیا سفید نالہ قاضی ناگ اس چھوٹی سی وادی کو حسن عطا کرتا ہے دو یونین کونسلز پر مشتمل وادی لیپہ کشمیر کی وادی کرناہ کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جو پہلے 1947ءکے جہاد میں آزاد کرایا گیا تھا پھر 1971ءکی جنگ میں اس کا زیادہ خوبصورت حصہ (ٹنگ ڈار) ہم سے نکل گیاتھا۔ وادی لیپہ کے چھوٹے سے قصبہ کے سرپہ بجلدھار کی چوٹیوں پر بھارتی فوج بیٹھی ہے۔ ذرا نیچے پاکستانی فوج بھارتی فوج کا سامنا کر رہی ہے اور وادی کے شہریوں کا تحفظ بھی فراہم کر رہی ہے۔ نالہ قاضی ناگ وادی سے گزر کر نوسیری کے قریب دریائے نیلم میں جاگرتا ہے۔ وادی لیپہ میں 9 ہزار فٹ بلند بھرت وارگلی سے گزر کر غا لباً 1957ءمیں سردار عبدالقیوم نے صدر کی حیثیت میں سفر کیا تھا۔ 1960ءمیں کے ایچ خورشید (مرحوم) نے صدر کی حیثیت میں وادی لیپہ کا باقاعدہ دورہ کیا تھا۔ راقم الحروف اپنے سرکاری فرائض کے سلسلہ میں اس دورہ میں ایچ خورشید کے ساتھ تھا۔ مظفر آباد جہازی سڑک پر نیلی کے مقام پر دریائے جہلم کو معلق پل کے ذریعہ عبور کر کے خورشید مرحوم نے یہ دورہ کیا تھا۔ انہوں نے ہی اس وادی میں سڑک کی تعمیر کا فیصلہ کیا تھا۔ 9ہزار فٹ بلند بھرت وار گلی کو پیدل عبور کر کے 6 ہزار فٹ بلند وادی لیپہ میں اترے تھے۔
رات جنگل میں بنے لکڑی کے ریسٹ ہاﺅس میں قیام کیا۔ اگلی صبح نالہ قاضی ناگ کے کنارے ایک بڑے چٹیل پتھر پر بیٹھے کے ایچ خورشید نے بے اختیار کہا ”مجھے پہلگام یاد آگیا ہے“۔ 1973ءمیں کشمیر کی تحریک آزادی کے ذہین ترین رہنما اے آر ساغر راقم الحروف کے ساتھ لیپہ گئے تو بالکل اسی طرح نالہ قاضی ناگ کے کنارے ایک چٹیل پتھر پر بیٹھ کر انکے منہ سے بے اختیار نکلا ”مجھے پہلگام یاد آ گیا ہے“۔ راقم الحروف کو وادی کشمیر کے دوبار سفر کے دوران 1984ءپہلگام جانے کا موقع ملا تھا۔ سری نگر سے تقریباً 50 میل کے فاصلہ پر پہلگام کا خوبصورت سیاحتی شہر بڑے وسیع رقبہ پر ہے۔ یہاں کا بازار بارونق ہے اور اس جگہ اندر گاندھی نے ایک کلب تعمیر کر رکھا ہے۔ کلب کے سامنے کھلے وسیع رقبہ میں پوکلپٹس کے نوخیز درخت ترتیب کے ساتھ لگائے گئے تھے ان درختوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے فاصلے پر کوزیک بنچ رکھے ہوئے تھے۔ ان موزیک بنچوں پر آپ بیٹھ جائیں تو پانی کی باریک سی لہریں آپکے پاﺅں کو چھو کر گزرتی ہیں۔ پہلگام نالہ کے کناروں پر نرم سبز گھاس سے لدی روشیں بنائی گئی تھیں۔ یہاں پر سیاح اسی نرم گداز گھاس پر بیٹھ کر یالیٹ کر فضا کا لطف اٹھاتے ہیں۔ ہم اس گھاس پر بیٹھے تو پاس کھڑے ایک مقامی کشمیری باشندے نے ہمیں بتایا کہ ایک ہفتہ قبل بھارت کے صدر گیانی ذیل سنگھ اپنے بچوں کے ساتھ اسی طرح اس گھاس پر بیٹھ گئے تھے۔ لیپہ کاٹنل تعمیر ہو گا تو سیاحوں کی بڑی تعداد وادی لیپہ میں ذوق سیاحت پورا کرنے کے لئے آئے گی لیکن مظفر آباد سے لیپہ تک 60 میل کا سفر آرام دہ بنانا ہو گا جس طرح کہ بھارت نے جموں سے سری نگر جانے والی سڑک پر 13 ہزار فٹ بلند پیر پنجال کے مقام پر دوٹنل تعمیر کر رکھے ہیں جو کہ 9ہزار فٹ کی بلندی پر تعمیر کئے گئے ہیں۔ سابق وزیر اعظم بھارت منموہن سنگھ نے جموں سے بانہال تک (پیر پنجال کے قدموں) میں ریلوے لائن بچھانے کا پروگرام بنایا تھا لیکن وہ مکمل نہیں ہو سکا۔ تاہم وادی کشمیر کے میدانی علاقہ انت ناگ سے لے کر سوپور تک مقامی آبادی کی سہولت کیلئے ریلوے لائن بچھائی گئی ہے۔ لیپہ ٹنل جب تعمیر ہو گا تو لیپہ کی خوبصورت وادی سیاحوں کیلئے کھل جائے گی۔ آزاد کشمیر میں بھی اور لیپہ کے چھوٹی سے وادیوں میں بھی خوشحالی اور ترقی کے امکانات روشن ہو جائیں گے۔