جس طرح آج کل کرکٹ کے بڑے بوڑھوں نے توتکار اور verbal brickbats (لفظی پتھرائو) کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ہمارے بزرگ کھلاڑی شاہد آفریدی بھی اسی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ان کا مضطرب دل زبان کو لگام نہیں ڈالنے دیتا اور کپتان بننے کی خواہش گہوارے میں پڑے ہوئے طفلِ شیر خوار کی طرح ہمک رہی ہے۔ ویسے تو قبلہ زرداری صاحب اور حضرت ڈاکٹر میاں نواز شریف نے اپنے احسانات سے اس قوم کو زیربار کر رکھا ہے لیکن اعجاز بٹ، ذکاء اشرف اور نجم سیٹھی صاحب کی صورت میں جو ’’تحفے‘‘ عطا کئے ہیں اس احسان کا بدلہ چکانے کے لئے ضروری ہے کہ قوم کم از کم ایک سو سال تک باری باری ان مہان ہستیوں اور ان کی آل اولاد کو سندِ اقتدار پر بٹھائے رکھے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں محسنانِ قوم کو عمر خضر عطا فرمائے لیکن کبھی بتقضائے بشریت ’’چل چلا‘‘ ہو بھی جائے تو خاندان مغلیہ کی طرح وارثانِ حاضر و تیار بیٹھے ہوں۔اعجاز بٹ، بورڈ تو کیا اپنے وجود پر بھی ایک بوجھ تھا جب وہ فیل بے زنجیر کی طرح چلتا تو دھرتی سکڑ اور سمٹ جاتی تھی۔ گو اہل صحافت کے ساتھ اس کی ہمیشہ ان بن رہی لیکن اپنی بے تکی باتوں اور بے ڈول جسم سے اس نے طفنن کے کئی اسباب فراہم کئے۔ ذکاء اشرف چونکہ چینی فروش تھا اس لئے اس نے اپنی میٹھی باتوں سے اہل قلم کو رام کئے رکھا۔ زرداری کا منظور نظر تھا۔ بڑا کائیاں بزنس مین اسے اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ دل اور دماغ تک پہنچنے کا ہر راستہ معدے سے گزرتا ہے۔ شاعر اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے محبوب کو اشکوں کے ہار پیش کرتے ہیں۔ ذکاء نے ابتدا ہی میٹروں کے ہار سے کی اور پھر ایک تسلسل اور تواتر کے ساتھ یہ سلسلہ جاری رکھا۔ ذکاء اشرف ایک ambitious شخص ہے۔ بدقسمتی سے اس کا کوئی حلقہ انتخاب نہیں ہے۔ کھاریاں کا رہنے والا شخص بہاولپور سے یونین کونسل تک کا الیکشن نہیں جیت سکتا یہی وجہ ہے کہ لیلائے اقتدار اور ہیروں کے ہار کے قافیہ اور ردیف ملتے جلتے ہیں۔ اگر صحافت کو ایک چمن تصور کر لیا جائے تو نجم سیٹھی اس باغ کا ایک تیز طرار شِکرا ہے۔ یہ چڑیوں کا شکار نہیں کرتا بلکہ انہیں پچکارتا رہتا ہے۔ ایک خوبصورت سی ذہین چڑیا اپنے کندھے پر بٹھا رکھی ہے جو ہمیشہ دور کی کوڑی لاتی ہے اور ’’یہ بھی ہو سکتا ہے‘‘ ’’وہ بھی ممکن ہے‘‘ کی صورت میں آنے والی کل کی باتیں اس کے حساس کانوں میں ڈالتی رہتی ہے۔ عمران خان کے بقول میاں نواز شریف نے اسے کرکٹ بورڈ کی مسند پر بٹھا کر ان احسانات کا بدلہ چکایا ہے جو اس نے ’’پینتیس پنکچروں‘‘ کی صورت میں لگائے تھے۔ عمران سادہ لوح ہے۔ اسے اس بات کا علم نہیں ہے کہ اس قسم کا کارنامہ ایک صحافی کے بس کا روگ نہیں ہے۔ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو گزشتہ پینتیس برس سے شریف خاندان کے زیر بار رہے ہیں۔ تھانیداروں، تحصیلداروں، استادوں اور منصفوں کی شکل میں ہزاروں کی تعداد میں جو بٹ اور نٹ کھٹ قسم کے لوگ ے ہیں انہوں نے احسان کا بدلہ تو چکانا ہی تھا۔ یہ لوگ عبوری حکومت کو فصلی بٹیرے کہتے اور سمجھتے ہیں۔ ان حالات میں سیٹھی کا کیا رول ہو سکتا تھا؟ تقسیم سے قبل لندن کی پریوی کونسل نے ایک رولنگ دی تھی۔ They also serve who wait and watch
چشم پوشی بھی (اگر ہو) تو امداد جرم کے زمرے میں آتی ہے۔ سیٹھی کی پریشانی کا سبب گھر کے بھیدی بھی نہیں جو اس کے چاروں اَور منڈلا رہے ہیں۔بات خان آفریدی کی کرکٹ کی ہو رہی تھی، اس کھیل کے پردھانوں کا ذکر کچھ طوالت اختیار کر گیا ہے۔ بقول غالب اگر مشاہدہ حق کی گفتگو ہو رہی ہو تو بھی ’’بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر‘‘ ہم نے بہت پہلے خان صاحب کو مشورہ دیا تھا کہ ان کی عمر اور کھیل کا تقاضا یہ ہے کہ وہ باعزت ریٹائر ہو جائیں۔ یہ غالباً دنیا کا واحد کھلاڑی ہے جس نے اپنے بے پناہ ٹیلنٹ کو اپنے ہی ہاتھوں بتدریج ضائع کیا ہے۔ اس کی خوش قسمتی یا قوم کی بدقسمتی یہ ہے کہ اگر پانچ برس میں یہ ایک مرتبہ بھی ’’پرفارم‘‘ کر جائے تو آئندہ آنے والے پانچ برس کے لئے اپنی سیٹ پکی کر لیتا ہے۔ اس نے ایشیا کپ میں ہندوستان کی Truncated team کے خلاف چھ چھکے کیا مارے چارسو واہ، واہ کی صدائیں آنے لگیں اور ورلڈ کپ میں جب سمندری جھاگ کی طرح بیٹھ گیا تو اس کے مداحوں نے کراہنا شروع کر دیا ہے۔ بات اگر وہیں تک محدود رہتی تو شاید اس کالم کے لکھنے کا جواز نہ بنتا۔ آفریدی نے اس شکست کو اپنی کپتانی کے لئے نیک شگون گردانا ہے اور آتے ہی ائرپورٹ پر بیان داغ دیا ’’شکست کھلاڑیوں کی منفی سوچ کی وجہ سے ہوئی ہے‘‘ ساتھ ہی دبے دبے الفاظ میں یہ عندیہ بھی دیا کہ وہ کپتانی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے تیار ہے۔ خان صاحب سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا آپ ان پلیئرز میں شامل نہیں تھے؟ بالفرض تھے تو ایک منفی سوچ والے شخص کو کپتان کس طرح بنایا جا سکتا ہے؟ ٹیم نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پہلے پندرہ اوورز میں بہت اچھا کھیل کھیلا۔ اگر پہلے پندرہ اوورز میں سوچ مثبت تھی تو آخری پانچ اوورز میں کیسے بدل گئی؟ دنیا کا کوئی کھلاڑی شکست کے بعد واپسی پر اس قسم کے جاہلانہ اور عاجلانہ بیان نہیں دے سکتا۔ خان صاحب نے سمجھا کہ کپتان حفیظ شکست کی وجہ سے منقار زیر پر ہے اور بورڈ کا ’’کھوتا کھوہ‘‘ میں ہے کیوں نہ اس انتشار اور افراتفری سے فائدہ اٹھایا جائے۔ اس سے پہلے بھی خان صاحب قواعد کی خلاف ورزی کرتے رہے ہیں۔ گو بورڈ نے انہیں نوٹس دیا ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ اس مرتبہ بھی صاف بچ جائیں گے۔ ایک اعتبار سے ان کی حکمت عملی درست ہے۔ جس چیئرمین کی حالت یہ ہو ’’ہر اک سے پوچھتا ہوں کہ جائوں کدھر کو میں‘‘ وہ آفریدی کو راہ راست پر کیسے لا پائے گا؟
واہ آفریدی، آہ آفریدی، جا آفریدی
Jun 18, 2014