رو میں ہے رخش عمر دیکھئے کہاں تھمے

چند دن ہوئے اخباروں میں خبر پڑھی کہ 625 کے قریب ہائی کورٹ ججز مجسٹریٹ بھرتی کر رہی ہے۔ میں متعدد بار لکھ چکا ہوں کہ ہائی کورٹ کو سول ججز یا مجسٹریٹ بھرتی کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ 17 گریڈ اور اس سے اوپر کی ملازمتیں صوبائی پبلک سروس کمیشن مقابلہ کے امتحان سے بھرتی کرتا ہے۔ ہائی کورٹ کا مجسٹریٹ، سول جج بھرتی کرنا غیر آئینی ہے اور اختیارات سے تجاوز ہے۔ 1952ء میں سول ججز کا امتحان پبلک سروس کمیشن نے لیا تھا جس میں پہلے 12 مختلف لاء کے پیپر دینے پڑتے تھے اور کوالیفائی کرنے کے بعد انٹرویو کیلئے candidate کو بلایا جاتا تھا۔
ہائی کورٹ رولز آرڈر اگر ملاحظہ فرمایا جائے تو اس میں سول جج کی تعیناتی کا بھی یہی طریقہ درج ہے اور بھرتی ہونے کے بعد ڈیپارٹمنٹل امتحان بھی پاس کرنا پڑتا ہے اس کے علاوہ تجربہ کی شرط کیلئے سول جج درجہ چہارم کے سول جج اول کلاس کے اختیار بھی تجربہ کی بنیاد اور قابلیت کے معیار کے مطابق ہائی کورٹ کے چھ ججز کی کمیٹی تفویض کرتی تھی۔ اسکے علاوہ نئے آئین میں کوئی طریقہ درج ہے اور نہ ہائی کورٹ رولز آرڈر میں کوئی طریقہ درج ہے۔ جب حنیف رامے صاحب چیف منسٹر تھے انہوں نے پہلی بار سول جج کو ہائی کورٹ میں تین پیپر دلوا کر ہائی کورٹ سے سلیکٹ کروایا لیکن ان کا اور مقابلہ میں جو امتحان دے کر سول جج قانون کے مطابق بھرتی ہوئے تھے انکی seniority کا مسئلہ ان کی retirement تک حل نہیں ہو سکا تھا اسکے بعد ریت بن چکی ہے کہ گورنمنٹ اور ہائی کورٹ مل کر غیرآئینی غیر قانونی طریقہ اختیار کرکے سول جج بھرتی کر رہی ہے۔
آئین کے مطابق ایک فیڈرل پبلک سروس کمیشن ہے اور دوسرے ہر صوبہ میں پروونشل پبلک سروسز کمیشن آئین کیمطابق ہیں۔ 17گریڈ اور اس سے اوپر کے گریڈ میں مقابلہ کا امتحان دیکر پبلک سروس کمیشن بھرتی کرتا ہے۔مجسٹریٹ سول جج یا CSP حضرات کو پبلک سروس کمیشن کے امتحان کے بعد اختیارات ہائی کورٹ دیتی ہے لیکن ہائی کورٹ کو بھرتی کرنے کا اختیار نہیں۔ اگر 625 سول جج آپ اب لے لیں گے تو 60 سال تک یہ ان سول ججوں کی 60 سال عمر ہونے تک نئی بھرتی نہیں ہو گی جس کا مطلب ہے کہ اعلیٰ ملازمت سب آفیسر 20,30سال تک ان اہم عہدوں کیلئے نوجوان بھرتی نہیں کیے جائینگے جو قوم کے ساتھ بھی مذاق ہے اور نوجوانوں کے ساتھ بھی مذاق ہے۔ ہائیکورٹ گورنمنٹ کے تو ہر غیرقانونی اقدام میں مداخلت کرتی ہے لیکن جو خود ہائی کورٹ میں غیر آئینی غیر قانونی کام ہو رہے ہیں ان کا کیسے سدباب ہو گا۔
چیف جسٹس صاحب یہ بھرتی بند کریں اور جتنی آسامیاں خالی ہیں ان کیلئے پبلک سروس کمیشن کو کہیں کہ مقابلہ کا امتحان لیکر جیسے چوہدری الیاس، چودھری شریف وغیرہ 1953ء میں بھرتی ہوئے تھے اس طرح سول ججز کوقانونی طریقہ سے بھرتی کیا جائے۔ اسی طرح ایڈیشنل سیشن ججز کی بھرتی کا طریقہ بھی ہائی کورٹ رولز آرڈر میں دیا ہوا ہے اس میں وکیلوں کا بھی کوٹہ ہے۔ سول جج سے پروموشن کرکے سیشن جج بننے کا بھی کوٹہ ہے۔ CSP سے بھی ایڈیشنل سیشن جج بننے کا بھی کوٹہ ہے۔ جس طرح انوار الحق صاحب، جسٹس کارنیلس، جسٹس رحمان اور جسٹس کیانی صاحب، سیشن جج بنے پھر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے۔ شفیق الرحمن صاحب ، S.S John، جسٹس ظفر اللہ یہ صاحبان CSP سے جوڈیشری میں آئے اور ایڈیشنل سیشن جج بنے۔ سپریم کورٹ کے ججز کیلئے اسی طرح P&P اور solicitor کے آفس کا بھی کوٹہ ہے لیکن اب سوائے وکیلوں کے اور کسی کیٹگری سے ایڈیشنل سیشن جج نہیں لیے گئے۔
ہائی کورٹ کے جج کی تعیناتی کا طریقہ 1972ء کے آئین میں دیا ہوا ہے جو 1956ء کے آئین بھی وہ طریقہ رائج تھا اور بھٹو کے متفقہ آئین 1972ء میں دیا ہوا تھا وہ صحیح تھا۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ کو چیف منسٹر نام بھیجتا تھا وہ مشورہ کرکے گورنر کو بھیجتا تھا گورنر خفیہ ایجنسیوں سے رپورٹ منگواتا تھا اور بعد میں سکروٹنی کرکے چیف جسٹس پاکستان کو بھیجتا بالآخر فائل پرائم منسٹر سے صدر پاکستان کو پہنچتی تھی اور خاصی سکروٹنی کے بعد صدر منظوری دیتا تھا جو صحیح طریقہ تھا ۔موجودہ آئین میں ترمیم جو افتخار چودھری چیف جسٹس نے کروائی ہے اس طریقہ سے انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوتے اور below average اور اچھی شہرت نہ رکھنے والے جج بھی بھرتی ہو رہے ہیں۔ اس لیے 1972ء کے آئین میں جو طریقہ درج ہے اسی کو ایسی آئینی ترمیم کرکے لایا جائے تاکہ غیر متنازع جج بھرتی ہوں۔ یہ تمام گزارشات میں متعدد بار کر چکا ہوں قوم اور ملک کی بہتری کیلئے ان گزارشات کو منظور کرتے ہوئے عملی جامہ پہنایا جائے۔
جب سے مجسٹریٹ سول جج کے ساتھ مل کر ہائی کورٹ کے ماتحت کر دیئے گئے ہیں گورنمنٹ کی رٹ تقریباً ختم ہو گئی ہے۔ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے اختیارات کچھ سیشن جج کو دے دیئے گئے ہیں کچھ اختیارات ناظم کو دے دیئے گئے ہیں اور کچھ اختیار S.P کو دے دے دیئے گئے ہیں۔ PCS ایگزیکٹو کے پاس کوئی مجسٹریٹ کے اختیار نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وکیل سول ججوں کے سر پھاڑنے بھی لگ گئے ہیں اور گورنمنٹ کا کنٹرول بھی ختم ہو گیا ہے۔ سیالکوٹ میں ایک نارووال کا واقعہ ہوا، دوسرا ڈسکہ میں واقعہ ہوا۔ نارووال میںلوگوں نے مبینہ ڈاکوئوں کو جان سے مار دیا اور ڈسکہ میں وکیلوں نے تھانے پر حملہ کیا اور تھانیدار بار کا صدر اور ایک وکیل کو گولیاں مار کر شہید کیا۔ دونوں واقعات نہایت افسوسناک ہیں لیکن کسی نے تجزیہ نہیں کیا ہے کہ ایسا کیوں ہوا۔ نارووال کا واقعہ تو اس لیے ہوا کہ عدالتیں ملزموں کو گواہی نہ ہونے کی وجہ سے بری کر دیتی ہیں اس لیے لوگوں نے طیش میں آکر دو لڑکوں کو ڈاکو سمجھ کر جان سے خود مار دیا۔ دوسرے ڈسکہ کے واقعہ کے حالات یوں ہیں۔ رجسٹری انچارج جو سب ڈویژن یا ضلع میں ہوتا ہے اس میں وکیل یہ چاہتے ہیں جس کو چاہیں تصدیق کر دیں خواہ جعلی دستاویز ہی کیوں نہ ہو اس پر رجسٹرار PCS آفیسر وکیل کے کہنے پر تصدیق کر دے جو قانوناً صحیح نہیں۔ پولیس کو تو اس رجسٹرار نے اپنے تحفظ کیلئے بلایا تھا۔
ایس ایچ او ڈسکہ وڑائچ تو اس آفیسر کی حفاظت کیلئے گیا ہوگا لیکن بعد میں وکیلوں نے دندناتے ہوئے ایس ایچ کو گالیاں دیں جس پر طیش میں آکر تھپڑ کھانے کے بعد گولی چلا دی جس سے دو جانیں شہید ہوئیں ہیں۔ تھانیدار کو بری ذمہ نہیں کر رہا اس نے گولی چلانے کی زیادتی کی لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے کسی نے کبھی سوچا ہے۔
پہلے مجسٹریٹ رجسٹری کے انچارج ہوتے تھے انہیں مجسٹریٹ کے اختیارات ہوتے تھے جب بھی کوئی وکیلوں کا یا پبلک کا جھگڑا ہوتا تھا وہ سینئر مجسٹریٹ اے سی ہو یا ڈپٹی کمشنر ہو آ جاتے تھے ۔ جو دونوں پارٹیوں کا موقف سنکر فیصلہ انصاف پر مبنی ہوتا تھا اور معاملہ رفع دفع ہو جاتا تھا لیکن اب ہر معاملہ پر پولیس سامنے آتی ہے۔ پولیس کیساتھ آنے سے پبلک میں اشتعال بڑھتا ہے جس سے انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے۔ انگریز بیوقوف نہیں تھے انہوں نے پی پی سی، سی آر پی سی جو اختیارات مختلف آفیسر کو تفویض کئے تھے وہ انتشار ختم کرانے کیلئے کافی ہوتے ہیں۔ اب C.R.P.C- P.P.C پر ترمیم کر کے کچھ اختیار پولیس کو دے دئیے گئے ہیں۔ کچھ اختیار ڈی ایم کے سیشن جج کو دئیے گئے ہیں اور کچھ ناظم کو دئیے گئے ہیں۔ سول جج اور مجسٹریٹ کے اختیارات ایک شخص کو دے دئیے گئے ہیں لیکن یہ تمام ترامیم جو مشرف کے زمانے میں پولیس C.R.P.C- P.P.C کو original shape میں نہیں لایا جائے گا، پولیس سے گولی چلانے کے اختیار اورکسی کے گھر میں داخل ہونے کے اختیار واپس نہیں لئے جائینگے۔ ماڈل ٹائون جیسے واقعات ڈسکہ کا سانحہ، نارووال کی مار دھاڑ کے واقعات ہوتے رہیں گے۔ خدا کیلئے پولیس کا 1860ء کا ایکٹ رائج کریں اور پولیس ایکٹ 2001ء کو واپس لیں اور پولیس ایکٹ 1860ء رائج کریں۔ جسطرح 2001ء کا لوکل باڈی ایکٹ واپس کریں، 1979 کا لوکل باڈی ایکٹ رائج کریں، ڈپٹی کمشنر، کمشنر اے سی مجسٹریٹ کو پہلے کی طرح CRPC کے اختیارات نہیں دینگے، مذکورہ بالا واقعات ہوتے رہیںگے ۔

ای پیپر دی نیشن