اسلام آباد (خبر نگار+ ایجنسیاں) سینٹ نے وفاقی بجٹ 2015-16ء کے لئے 92 سفارشات کی منظوری دے کر انہیں قومی اسمبلی کو بھجوا دیا ہے۔ سفارشات میں کہا گیا ہے سرکاری ملازمین کی بنیادی تنخواہ میں ایڈہاک الائونسز کے انضمام کے بعد تنخواہوں اور پنشن میں 12.5 فیصد کا اضافہ کیا جائے کیونکہ تنخواہوں اور پنشن میں ساڑھے سات فیصد اضافہ کافی نہیں، آرمی پبلک سکول پشاور کے شہداء کے لئے بجٹ میں خصوصی فنڈز مختص کئے جائیں اور حملے میں زخمی ہونے والوں کو بھی معاوضہ ادا کیا جانا چاہیے، چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے پر بھرپور عملدرآمد کیا جائے، ہیپاٹائٹس کے خاتمے خصوصی فنڈز اور باچا خان انٹرنیشنل ائرپورٹ کی حالت بہتر بنانے کے لئے پی ایس ڈی پی میں پانچ ارب روپے مختص کئے جائیں، چشمہ رائٹ بنک کینال منصوبے پر کام تیز کیا جائے جو 2004ء سے زیر التوا ہے، بڑی صنعتوں کی سہولت کے لئے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 65 ای کی میعاد میں 30 جون 2018ء تک توسیع دی جائے، گوشوارے جمع نہ کرانے والوں سے کم از کم 50 ہزار روپے کی ٹرانزایکشن پر ایڈوانس ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے، نیشنل ٹیرف کمیشن کی سفارش کے مطابق پرزوں اور تیار شدہ اشیاء پر کسٹم ڈیوٹی کی شرح یکساں نہیں ہونی چاہیے، یوریا، ڈی اے پی، این پی کے، پوٹاشیم، زنک اور کیڑے مار ادویات پر جی ایس ٹی واپس لیا جائے، ملک کے اندر تیار ہونی والی زرعی مشینری پر سیلز ٹیکس ختم کیا جائے، پولٹری کے تمام آلات اور سامان پر صرف دو فیصد ڈیوٹی نافذ کی جائے اور اسے سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے، تمام بین الاقوامی قرضوں اور اقتصادی معاہدوں کی تفصیلات پارلیمنٹ میں پیش کی جائیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کی حد بندی کا مسئلہ حل کیا جائے، اربوں کیوسک پانی بچانے کے لئے ہنگول ڈیم، نادھی ڈیم، مولاڈیم، کراخ ڈیم، گوادر میں سودام ڈیم، نوشکی میں خیسار ڈیم ترجیحی بنیادوں پر تعمیر کئے جائیں۔ کاشتکاروں کو معیاری ٹریکٹرز کی فراہمی کے لئے یورو II اور یورو III کی درآمد پر صرف دو فیصد ڈیوٹی عائد کی جائے اور اسے سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ زرعی مقاصد کے لئے لفٹ مشینوں اور دوسرے پمپوں کے لئے بجلی کے ٹیرف پر سبسڈی دی جائے، حکومت نئے صنعتی یونٹس کے قیام کے لئے طویل مدتی قرضوں پر کم مارک اپ کی شرح کا اعلان کرے، بزرگ شہریوں کے لئے بھی بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے مناسب فنڈز مختص کئے جائیں، توانائی کی لاگت میں کمی کے لئے وفاقی حکومت تمام ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا انتظام صوبائی حکومتوں کے حوالے کرے، توانائی سے متعلق معاملات کو تیزی سے نمٹانے کے لئے مختص وفاقی وزارتوں کو ضم کر کے ایک توانائی کی وزارت قائم کی جائے، حکومت انڈسٹریل اسٹیٹس کے لئے بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم کرے، پانچ سال پرانی ری کنڈیشن پرانی گاڑیوں کی درآمد کی اجازت دی جائے۔ پی آئی اے کے کرایوں میں کمی لائی جائے۔ پاکستان سے افغانستان کو پھلوں، سبزیوں، ڈیری مصنوعات اور گوشت جیسی جلد خراب ہونے والی اشیاء کی برآمد کے لئے ڈالر کی بجائے روپے میں درآمد کی اجازت دی جائے۔ کھاد اور کیڑے مار ادویات کی خریداری کے لئے بلوچستان کے کاشتکاروں کے لئے خصوصی سبسڈی کا اعلان کیا جائے، خیبرپی کے کی صنعتوں کی طرح بلوچستان کی صنعتوں کو بھی ٹیکس کی چھوٹ دی جائے۔ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی 58 فیصد سے بڑھا کر 70 فیصد کی جائے۔ ملک کے فائدے کے لئے ٹیکس ریفارم بل متعارف کرایا جائے، پانچ ہزار روپے مالیت تک کے موبائل فون سیٹس کو جی ایس ٹی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے، ایف بی آر کو بنک اکائونٹس تک رسائی کے لئے دیئے جانے والا اختیار واپس لیا جائے۔ ایف بی آر کی خط و کتابت انگریزی زبان کی بجائے اردو زبان میں ہونی چاہیے، عام آدمی تک سبسڈی پہنچنے کے عمل کا جائزہ لینے کے لئے کمیشن قائم کیا جائے۔ سینٹ کے ارکان کو بھی قومی اسمبلی کے ارکان کے مساوی ترقیاتی فنڈز فراہم کئے جائیں۔ فاٹا اور گلگت بلتستان کو مالی خود مختاری اور خصوصی ترقیاتی پیکج دیئے جائیں۔ سولر ٹیوب ویل پر سبسڈی اور دوسری مراعات دی جائیں تاکہ اس کے استعمال کو بڑھایا جائے۔ تمام سرکاری ملازمین اور پنشنرز کا میڈیکل الائونس 100 فیصد بڑھایا جائے اور کم از کم پنشن کی حد 6 ہزار روپے سے بڑھا کر 8 ہزار روپے کی جائے۔ ملک بھر میں کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا جائے اور ان کی کم از کم تنخواہ 20 فیصد بڑھائی جائے۔ علاوہ ازیں سنیٹر فرحت اللہ بابر کے توجہ دلائو نوٹس کا جواب دیتے ہوئے وزیر مملکت داخلہ نے کہا کہ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کی نو منتخب سینیٹر شیری رحمان نے حلف اٹھا لیا ہے۔ وفاقی وزیر بین الصوبائی رابطہ ریاض حسین پیرزادہ، وزیر مملکت بلیغ الرحمان اور قائد ایوان راجہ ظفرالحق نے انہیں مبارکباد دی۔