انجینئرنگ کا تعلیمی پس منظر نہ رکھنے والے ایسے آبی ماہرین جو کالاباغ ڈیم کی تعمیر کیخلاف ہیں ،اُن کے یہاں ایک اور مفروضے کو قبول علم کی سند حاصل ہے۔ اِس مفروضے یا تصور کی بنیاد ایک دُور اذکار ”سازشی نظریہ“ پر مبنی ہے ۔ انکا خیال ہے کہ تربیلا ڈیم میں جمع ہونےوالی مٹی بہت کم لاگت کےساتھ آبی ذخیرے سے نکالی جاسکتی ہے۔ یہ مٹی نہ صرف آبی ذخیرے سے باہر نہیں نکالی جارہی ہے بلکہ مزید مٹی بھی ڈیم میں جمع ہونے دی جارہی ہے ،تاکہ تربیلا ڈیم مٹی سے بھر جائے اور کالا باغ ڈیم کی تعمیر کیلئے جواز پیدا کیا جاسکے۔ تمام دریاﺅںکے پانی میں مٹّی اور گاد وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جس طرح دریا میں پانی بہہ رہا ہوتا ہے اُسی طرح کنکر ،مٹّی اور ریت کے ذرات بھی بہہ رہے ہوتے ہیں ۔ جب دریا کا پانی کسی ڈیم میں پہنچ کر ساکت ہوتا ہے تو اُسکے ساتھ آنیوالی ہر چیزآبی ذخیرے کی تہہ میں بیٹھ جاتی ہے ۔ جوں جوں آبی ذخیرے میں مٹّی اورگاد جمع ہوتی رہتی ہے ، اُس میں پانی جمع کرنے کی صلاحیت میں بتدریج کمی واقع ہوتی رہتی ہے۔ تمام آبی ذخائر کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے ۔ البتہ آبی ذخائر میں مٹی بھرنے کی شرح ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ عام طور پر کسی بھی آبی ذخیرے کی عمر کا تعین اس بات سے کیا جاتا ہے کہ اُسکی پانی ذخیرہ کرنے کی 80فیصد صلاحیت مٹی بھر جانے کی وجہ سے کتنے برسوں میں ختم ہوگی۔ تربیلا سے بالائی جانب دریائے سندھ میں زیادہ تر پانی گلیشیئر پگھلنے کی وجہ سے آتا ہے۔ بالائی علاقوں میں دریا کے ارد گرد عمودی پہاڑ ہیں جن پر بہت کم سبزہ موجود ہے۔ گلیشیئرز سے پگھل کر آنے والا پانی چٹانوں کو توڑتا ہوااپنے ساتھ بہت زیادہ چٹانی مٹّی اور پتھر لے آتا ہے۔
عالمی بنک نے تربیلا ڈیم کےلئے رقم کی منظوری 1965ءمیں دی جبکہ اس پر تعمیراتی کام کا آغاز 1968ءمیں ہُوا ۔ اُس وقت تک آبپاشی کے انجینئرز بیراج بناتے وقت کینال ہیڈ ورکس کے سامنے (Under Sluices)تعمیر کیا کرتے تھے تاکہ نہروں میں پانی کے ساتھ بہہ کر جانے والی مٹی اور ریت کی مقدار میں کمی لائی جاسکے۔ اسکے برعکس بڑے ڈیموں میں مٹی اور ریت کو جمع ہونے سے روکنے کیلئے اُس وقت تک کوئی آزمودہ ٹیکنالوجی دستیاب نہیں تھی۔
اگر ہم پاکستان کی جانب سے ڈیموں مں مٹی بھرنے کے عمل کو کنٹرول کرنے کی تاریخ کا جائزہ لیں تو وارسک ڈیم کے حوالے سے ہمار ا تجربہ نہایت خوفناک ہے۔ آزادی کے حصول کے بعد وارسک ڈیم کا کثیر المقاصد منصوبہ اپنی نوعیت کے اعتبار سے اولین تجربہ تھا، جس پر پاکستان او رکینیڈا کی حکومتوں نے مشترکہ طور پر عملدرآمد کیا ۔ یہ منصوبہ 5سال کی مدت میں تکمیل کے بعد 1960ءمیں فعال ہوگیا ۔ وارسک ڈیم کے ڈیزائن کے اندر آبی ذخیرے کے اندر جمع ہونیوالی مٹّی کو نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں رکھی گئی تھی جسکے نتیجے میں اپنے آپریشن کے پہلے 5برسوں میں ہی آبی ذخیرے کا بہت بڑا حصہ مٹی سے بھر گیا اور 1974ءتک اس ڈیم میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بالکل ہی ختم ہوگئی۔ اُسکے بعد سے یہ ڈیم رَن آف دی ریور (Run-of-the-River) کے طور پر صرف پن بجلی پیدا کررہا ہے۔ تربیلا ڈیم کے منصوبہ ساز مٹی بھرنے کے مسئلے سے آگاہ تھے ، چنانچہ انہوں نے دریا کے پانی کے ساتھ آبی ذخیرے میں آنیوالی مٹی کو روکنے کیلئے واٹر شید مینجمنٹ کے مروجہ طریقِ کار پر زور دیا۔ نتیجتاً 1971ء مےں تربیلا واٹر شید مینجمنٹ پراجیکٹ کا آغاز کیا گیا۔ تاہم 1977ءمیں اس ڈیم کی تعمیر مکمل ہونے اور ا س کا آپریشن شروع ہونے کے بعد ہی آبی ذخائر میں مٹی کو بھرنے سے روکنے کیلئے دیگر طریقے انجینئروں کے علم میں آئے۔
اُس وقت چین میں واقع سان منگیزیا (Sanmenxia) ڈیم ہی دُنیا بھر مےں وہ واحد کامیاب مثال تھا جس کی مدد سے واپڈا کے انجینئرز آبی ذخیرے سے مٹی نکالنے کا طریقہ سیکھ کر اُسے بروئے کار لاسکتے تھے۔ تاہم چین میں آبی ذخائر میں جمع ہونےوالی گاد نسبتاً نرم ہوتی ہے۔
ہمارے یہاں ڈیموں میں مٹی اور گاد بھرنے کے عمل پر قابو پانے کیلئے واپڈا بین الاقوامی طور پر معروف غیر ملکی کنسلٹنٹس اور اداروں کے اشتراک سے اس بارے میں متعدد تحقیقی مطالعات سے استفادہ کرتا ہے۔ تربیلا ڈیم میں مٹی بھرنے کا عمل موسم گرما اور موسم سرما کے دوران مختلف ہے ۔ موسم گرما میں جب پانی کا بہاﺅ بہت زیادہ ہوتا ہے تو اُس وقت مٹی کی بہت زیادہ مقدار آبی ذخیرے میں داخل ہوتی ہے۔ا ور تربیلا جھیل کے اندر مٹی سے بننے والے ڈیلٹا کے اوپر جمع ہوجاتی ہے۔ جب موسم سرما میں آبی ذخیرے میں پانی کی سطح کم ہوتی ہے تو یہ ڈیلٹا پانی سے باہر نکل آتا ہے۔ اِس دوران آبی ذخیرے میں داخل ہونے والا پانی مٹّی کے اس ڈیلٹا کے اوپر سے گزرتاہے اور اسے آگے کی سمت دھکیلتا ہے ۔تربیلا ڈیم میں مٹّی بھرنے کے عمل کو روکنے کےلئے ابھی تک پانچ تحقیقی مطالعات کئے جاچکے ہیں یہ مطالعات درج ذیل ہیں :
1۔تربیلا ڈیم کی دوسری معیادی انسپکشن 1992ئ۔ 2۔ورلڈ بنک مشن 1995ئ۔ 3۔ٹیمز اور ایچ آر ویلنگ فورڈ 1997-98ئ۔ 4۔تربیلا ڈیم کی پانچویں معیادی انسپکشن 2007ئ۔ 5۔2013ءمیں موٹ میکڈونلڈ اور ایچ آر ویلنگ فورڈ کی جانب سے کئے گئے تحقیقی مطالعات ۔
تاہم وہ مصنفین جو اِس بارے میںاپنے شکوک کا اظہار کرتے ہیں وہ اپنی گفتگو کے دوران جس تحقیقی مطالعہ کا سب سے زیادہ حوالہ دیتے ہیں ، وہ 1998ءکی ٹیمز رپورٹ ہے جس میں تربیلا کے آبی ذخیرے میں پانی جمع کرنے کی کھوئی ہوئی صلاحیت کو دوبارہ حاصل کرنے اور ڈیم کی عمر میں اضافہ کیلئے تربیلا ڈیم سے مٹی اور گاد کے اخراج کیلئے ایک نظام کی تنصیب / تعمیر کی خاطر ”ایکشن پلان“ تجویز کیا گیا ہے۔ ٹیمز کے تحقیقی مطالعات میں درج ذیل اقدامات کی سفارش کی گئی ہے :
(الف) سرنگوں میں پانی داخل ہونے کے مقامات کو بچانے کیلئے زیر آب حفاظتی بند کی تعمیر۔(ب)مٹی اور گاد کو خارج کرنے/بہاﺅ کے ذریعے باہر نکالنے کیلئے چار نئی سرنگوں کی تعمیر۔ (ج)چار سرنگوں میں پانی داخل ہونےوالے مقامات کو مٹّی اور گاد سے صاف رکھنے کیلئے گاد کو کھود کر آبی ذخیرے سے باہر نکالا جائے۔
ٹیمز نے اپنے تحقیقی مطالعات میںجو اقدامات تجویز کئے تھے ، وہ تکنیکی اور اقتصادی لحاظ سے قابل عمل نہیں پائے گئے ۔
2013ءمیں موٹ میکڈونلڈ کی جانب سے کئے گئے حالیہ تحقیقی مطالعات کے مطابق تربیلا ڈیم میں روزانہ 5لاکھ ٹن مٹی آتی ہے یعنی ڈیم میں ہر سال 200ملین ٹن مٹی جمع ہوتی ہے۔ موٹ میکڈونلڈ کے انجینئرز کے اپنے الفاظ ہیں کہ ”اپنی نوعیت کے اعتبار سے اتنے بڑے معاملے سے نمٹنے کےلئے دُنیا بھر میں دوطریقے موجود ہیں۔ ایک طریقہ یہ ہے کہ اس گاد کو کھود کو باہر نکالا جائے اور دوسرا یہ کہ سیلاب کے دنوں میں دائیں کنارے پر واقع زیریں سطح پر تعمیر کئے گئے اخراجی دہانوں کو کھول کر مٹی اور گاد کو پانی کے ساتھ آبی ذخیرے سے باہر نکالا جائے۔بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ یہ دونوں طریقے قابل عمل نہیں ہیں ، کیونکہ مٹی کو کھود کر باہر نکالنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ڈیم کے دونوں کناروں پر ایسی کوئی جگہ موجود نہیں ہے جہاں کُھدائی کے بعد اِس مٹی کو منتقل کیا جائے۔
ٹیمز کی رپورٹ میں پیش کی جانےوالی سفارشات پر مذکورہ تشویش کے باعث عملدرآمد نہیں کیا گیا ہے۔ اس وقت واپڈا تربیلا کے آبی ذخیرے کے آپریشن کو اس طرح چلا رہا ہے کہ مٹی کے ڈیلٹا کی ڈیم کی جانب بڑھنے کی رفتار کو کم کیا جاسکے۔ بجلی پیدا کرنے کی ٹربائنوں کو محفوظ بنانے کیلئے سرنگ نمبر تین ، چار اور پانچ میں پانی داخل ہونے کے مقامات کو بلند کیا جارہا ہے۔ یہ تعمیراتی عمل اس وقت تکمیل کے مختلف مراحل میں ہے ۔ تربیلا ڈیم سے بالائی جانب دیا مربھاشا ڈیم اور داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تعمیر سے بھی تربیلا کے آبی ذخیرے میں آنیوالی مٹی کی مقدار میں کمی واقع ہوگی اور اسکی عمر میں مزید 45سال کا اضافہ ہو جائیگا۔ میں نے یہ معاملہ اِس قدر وضاحت کیساتھ اس لئے بیان کیا ہے کہ ایک درویش صفت ، باکمال شخصیت جناب جی این مغل سمیت سندھ کے بعض انتہائی باعلم کالم نگاروں اور مصنّفین نے میرے ساتھ اپنی گفتگو میں ٹیمز رپورٹ کا حوالہ دیا تھا ، کیونکہ وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ واپڈا ٹیمز کی رپورٹ میں پیش کی گئی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہیں کررہا؟